Home ≫ ur ≫ Surah Az Zumar ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗؕ-وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(36)وَ مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّؕ-اَلَیْسَ اللّٰهُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ(37)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ: کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟} اس آیت میں ’’بندے‘‘ سے مراد سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسے وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جن کے ساتھ ان کی قوموں نے ایذا رسانی کے ارادے کئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور ان کی کفایت فرمائی،جیسے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غرق ہونے سے محفوظ رکھا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں سلامت رکھا،تو اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کو کافی رہا تو آپ کے لئے کیوں کافی نہ ہو گا، یقیناً جس طرح اللہ تعالیٰ آپ سے پہلے رسولوں کوکافی تھا اسی طرح آپ کو بھی کافی ہے۔
{وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ: اور وہ تمہیں اللہ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔} شانِ نزول:بعض مفسرین نے فرمایا کہ کفارِ عرب نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبتوں سے ڈرانا چاہا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں یعنی بتوں کی برائی بیان کرنے سے باز آئیے ورنہ وہ آپ کو اس طرح نقصان پہنچائیں گے کہ ہلاک کردیں گے یا عقل کو فاسد کردیں گے۔ (خازن، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۴ / ۵۶) اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ عُزّیٰ بت کی طرف گئے تاکہ اسے کلہاڑے کے ذریعے توڑ دیں ،جب اس کے قریب پہنچے تو اس کے خدمتگار نے کہا ’’اے خالد بن ولید! اس بت سے ڈرو کیونکہ یہ بڑی قوت والا ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔حضرت خالدبن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی پرواہ کئے بغیر کلہاڑے سے عُزّیٰ بت کی ناک توڑ دی اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔حضرت خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ڈرانا گویا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ڈرانا ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے ہی یہ کام کیا تھا اس لئے آیت میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا گیا کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈراتے ہیں ۔(قرطبی، الزّمر، تحت الآیۃ: ۳۶، ۸ / ۱۸۸، الجزء الخامس عشر)
آیت کے اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کفار کی حماقت کا یہ حال ہے کہ وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے بنائے ہوئے جھوٹے معبودوں سے ڈراتے ہیں حالانکہ ان کے بناوٹی معبود خود بے جان اور بے بس ہیں اور اگر بالفرض انہیں کوئی قدرت حاصل بھی ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں عاجز ہی رہتے اور جب حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی ہے تو ان کا اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے معبودوں سے ڈرانا باطل اور بے کار ہے ۔
{وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ: اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کیلئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ باتیں اسی وقت فائدہ مند ہیں جب بندے کو ہدایت اور توفیق حاصل ہو اوراصل بات یہ ہے کہ جس کی بد عملیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت یعنی ایمان کا نور دے تواسے کوئی بہکانے والا نہیں ۔مزید فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ؟ کیوں نہیں ؟یقیناً ہے توجب اللہ تعالیٰ ہی غالب ہے اور بتوں کا عاجز و بے بس ہونابھی ظاہر ہے تو پھر کافروں کا بتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔