banner image

Home ur Surah Az Zumar ayat 48 Translation Tafsir

اَلزُّمَر

Az Zumar

HR Background

وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ(47)وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(48)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر ظالموں کے لیے ہوتا جو کچھ زمین میں ہے سب اور اس کے ساتھ اُس جیسا تو یہ سب چھڑائی میں دیتے روز ِ قیامت کے بڑے عذاب سے اور اُنہیں اللہ کی طرف سے وہ بات ظاہر ہوئی جو ان کے خیال میں نہ تھی۔ اور ان پر اپنی کمائی ہوئی برائیاں کھل گئیں اور ان پر آپڑا وہ جس کی ہنسی بناتے تھے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگر جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اس جیسا اوربھی ظالموں کی ملک میں ہوتا تو قیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عوض وہ سب کا سب دیدیتے اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اور ان پر ان کے کمائے ہوئے برے اعمال کھل گئے اور ان پر وہی آپڑا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اور اگر ظالموں  کی ملک میں  ہوتا۔} مشرکین کے باطل مذہب کو بیان کرنے کے بعد اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تین وعیدیں  بیان فرمائی ہیں۔

           پہلی وعید: اگر بالفرض کافر پوری دنیا کے اَموال اور ذخائر کے مالک ہوتے اور اتنا ہی اور بھی ان کے مِلک میں  ہوتا توقیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عِوَض وہ سب کا سب دیدیتے تا کہ کسی طرح یہ اَموال دے کر انہیں  اِس عذاب ِعظیم سے رہائی مل جائے لیکن وہ قبول نہ کیا جائے گا۔

          دوسری وعید: بروزِ قیامت ان کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں  نے سوچا بھی نہیں  تھا۔ اس کامعنی یہ ہے کہ ان کے لئے ایسے ایسے شدید عذاب ظاہر ہوں  گے جن کا انہیں  خیال بھی نہ تھا۔

             تیسری وعید:اُن پر ان کے برے اعمال کے آثار ظاہر ہو جائیں گئے جو انہوں نے دنیا میں  کئے تھے جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کے دوستوں  پر ظلم کرنا وغیرہ اور نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خبر دینے پر وہ جس عذاب کامذاق اڑایاکرتے تھے وہ نازل ہوجائے گااور مشرکین کو گھیرلے گا۔( تفسیرکبیر، الزّمر، تحت الآیۃ:۴۷-۴۸،۹ / ۴۵۸، خازن، الزّمر،تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۴ / ۵۸، روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷-۴۸، ۸ / ۱۲۰-۱۲۱، ملتقطاً)

{وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ: اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں  نے سوچا بھی نہیں  تھا۔} اس آیت کی تفسیر میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرکین گمان کرتے ہوں  گے کہ اُن کے پاس نیکیاں  ہیں  لیکن جب نامہ ِاعمال کھلیں  گے تو بدیاں  ظاہر ہوں  گی۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)

 نیک اعمال کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے:

            یاد رہے کہ اس آیت میں  اگرچہ مشرکین کے لئے وعید کا بیان ہے لیکن اس میں  مسلمانوں  کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے اور انہیں  بھی چاہئے کہ نیک اعمال کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں  ۔ہمارے بزرگانِ دین اس حوالے سے کس قدر خوفزدہ رہا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ گریہ و زاری کرنے لگے ۔ لوگوں  نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’میرے پیش ِنظرقرآنِ پاک کی ایک آیت ہے جس کی وجہ سے میں  بہت خوفزدہ ہوں ،پھر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا’’ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جنہیں  میں  نیکیاں  شمار کر رہا ہوں  کہیں  وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے بدیاں  بن کر نہ ظاہر ہو جائیں ۔ (مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)

            اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال کو محفوظ فرمائے اور ان کے بارے میں  اپنی خفیہ تدبیر سے ڈرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔