Home ≫ ur ≫ Surah Az Zumar ≫ ayat 53 ≫ Translation ≫ Tafsir
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)
تفسیر: صراط الجنان
{قُلْ: تم فرماؤ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک اللہ تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔ (تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:۵۳، ۹ / ۴۶۳-۴۶۴، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶ / ۴۳۹-۴۴۰، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۱۰۴۳، ملتقطاً)
اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مشرکوں کے کچھ آدمیوں نے بارہا قتل و زِنا کا اِرتکاب کیا تھا،یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے کہ کیا ہمارے اتنے سارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے؟اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ‘‘(فرقان:۶۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے۔
اور یہ آیت نازل ہوئی:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم... الخ، ۳ / ۳۱۴، الحدیث: ۴۸۱۰)
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ بندے سے اگرچہ بڑے بڑے اور بے شمار گناہ صادر ہوئے ہوں لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے انتہا وسیع ہے اور ا س کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت کا دروازہ تب تک کھلا ہے جب تک بندہ اپنی موت کے وقت غَرغَرہ کی حالت کو نہیں پہنچ جاتا ،اس وقت سے پہلے پہلے بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی تو کیا بات ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے انسان !جب تک تو مجھ سے دعا کرتا اور امید رکھتا رہے گا میں تیرے گناہ بخشتا رہوں گا، چاہے تجھ میں کتنے ہی گناہ ہوں مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان!اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں ،پھر تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا مجھے کوئی پروا نہیں ۔اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی میرے پاس لے کر آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تمہیں اس کے برابر بخش دوں گا۔ (ترمذی، کتاب الدّعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار... الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
اس آیت کا مفہوم مزید وضاحت سے سمجھنے کیلئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہ کلام ملاحظہ فرمائیں : جوشخص سرتا پا گناہوں میں ڈوبا ہوا ہو، جب اس کے دل میں تو بہ کا خیال پیدا ہو تو شیطان اس سے کہتا ہے کہ تمہاری تو بہ کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ وہ (یہ کہہ کر) اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیتا ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ مایوسی کو دور کرکے امید رکھے اور اس بات کو یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ کریم ہے جو بندوں کی تو بہ قبول کرتاہے، نیز تو بہ ایسی عبادت ہے جو گناہوں کو مٹادیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ‘‘(زمر:۵۳،۵۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو۔
تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف رجوع (یعنی توبہ) کرنے کا حکم دیا۔
اور ارشاد فرمایا: ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ‘‘(طہ:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
تو جب تو بہ کے ساتھ مغفرت کی توقُّع ہوتو ایسا شخص امید کرنے والا ہے اور اگر گناہ پر اِصرار کے باوجود مغفرت کی تو قع ہو تو یہ شخص دھو کے میں ہے جیسے ایک شخص بازار میں ہو اور اس پر جمعہ کی نماز کا وقت تنگ ہوجائے، اب اس کے دل میں خیال آئے کہ وہ نمازِ جمعہ کے لئے جائے لیکن شیطان اس سے کہتا ہے کہ تم جمعہ کی نماز نہیں پاسکتے لہٰذا یہاں ہی ٹھہرو،لیکن وہ شیطان کو جھٹلا تے ہوئے دوڑ جاتا ہے اور اسے امید ہے کہ نمازِ جمعہ پالے گا تو یہ شخص امید رکھنے والا ہے اور اگر وہ شخص کاروبار میں مصروف رہے اور یہ امید رکھے کہ امام میرے یا کسی او ر کے لئے درمیانے وقت تک انتظار کرے گا یا کسی اور وجہ سے منتظر رہے گا جس کا اسے علم نہیں ہے تو یہ شخص دھو کے میں مبتلا ہے۔( احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے اور اپنی رحمت و مغفرت سے حقیقی امید رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ ایک خاص چیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا گیا لیکن عمومی طور پر ہر حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور نا امید ہونا منع ہے ،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی پے در پے مصیبتوں ،مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہر گز مایوس اور نا امید نہ ہو کیونکہ یہ کافروں اور گمراہوں کا وصف اور کبیرہ گناہ ہے ، چنانچہ سورہِ یوسف میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ‘‘(یوسف:۸۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔
اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نقل کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے :
’’وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ‘‘(حجر:۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے؟
اور کافر شخص کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
’’لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ‘‘(حٰمٓ السجدۃ:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا اور اگرکوئی برائی پہنچے تو بہت ناامید ،بڑا مایوس ہوجاتا ہے۔
اورحضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیرسے بے خوف اوراُس کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا۔(کنزالعمّال، کتاب الاذکار، قسم الافعال، فصل فی التفسیر، سورۃ النّساء، ۱ / ۱۶۷، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۳۲۲)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو باتوں میں ہلاکت ہے، (1)مایوسی۔ (2)خود پسندی۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان دو باتوں کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حصول کوشش،طلب،محنت اور ارادے کے بغیر ناممکن ہے اور مایوس آدمی نہ کوشش کرتا ہے اور نہ ہی طلب کرتا ہے جبکہ خود پسند آدمی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مراد کے حصول میں کامیاب ہو چکا ہے اس لئے وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔(احیاء علوم الدّین، کتاب ذمّ االکبر والعجب، الشطر الثانی من الکتاب فی العجب، بیان ذمّ العجب وآفاتہ، ۳ / ۴۵۲)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اورمَصائب و آلام میں اسی کی بارگاہ میں دست ِدعا دراز کرتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی طور پر مشکلات کو دور کرنے والا اور آسانیاں عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے مایوس اور ناامید ہو جانے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔