Home ≫ ur ≫ Surah Fatir ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًاؕ-اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ-وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌؕ-وَ مَكْرُ اُولٰٓىٕكَ هُوَ یَبُوْرُ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا: جو عزت کا طلبگار ہو توساری عزت تو اللہ کے پاس ہے ۔} کفار بتوں سے عزت طلب کیا کرتے تھے اور منافقین کافروں کے پاس عزت ڈھونڈتے تھے ،جیسا کہ سورۂ نسا ء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔
تو یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ دنیا اور آخرت میں صرف وہی عزت کا مالک ہے ،جسے چاہے عزت دے ، لہٰذا جو عزت کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ سے عزت طلب کرے کیو نکہ ہر چیز اس کے مالک ہی سے طلب کی جاتی ہے اوریہ بات قطعی ہے کہ حقیقی عزت طلب کرنے کا ذریعہ ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں ۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۲-۹۷۳)
{اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ: پاکیزہ کلام اسی کی طرف بلند ہوتا ہے۔} یعنی پاکیزہ کلام اس کی قبولیت اور رضا کے محل تک پہنچتا ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۳)
پاکیزہ کلام سے مراد کلمہ توحید ، تسبیح و تحمید اور تکبیر وغیرہ ہیں جیسا کہ امام حاکم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مُستدرک میں اور امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شعب الایمان میں ذکر کردہ روایت میں ہے۔( مستدرک،کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الملائکۃ،۳ / ۲۰۴، الحدیث: ۳۶۴۲، شعب الایمان، العاشر من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، فصل فی ادامۃ ذکر اللّٰہ عزوجل، ۱ / ۴۳۴، الحدیث: ۶۲۵)
اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کلمۂ طیّب کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد ذکر ہے اور بعض مفسرین نے اس سے قرآن اور دعا بھی مراد لی ہے۔(تفسیر طبری، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۱۰ / ۳۹۹، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۲۴، ملتقطاً) اور اسی میں نیکی کی دعوت کیلئے ادا کئے جانے والے کلمات بھی داخل ہیں ۔
{وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ: اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے۔} نیک کام سے مراد وہ عمل اورعبادت ہے جو اخلاص سے ہو اور آیت کے اس حصے کا ایک معنی یہ ہے کہ کلمۂ طیبہ عمل کو بلند کرتا ہے کیونکہ توحید اور ایمان کے بغیر عمل مقبول نہیں ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نیک عمل کو اللہ تعالیٰ رفعتِ قبول عطا فرماتا ہے۔تیسرا معنی یہ ہے کہ نیک عمل عمل کرنے والے کا مرتبہ بلند کرتے ہیں تو جو عزت چاہے اس پر لازم ہے کہ نیک عمل کرے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۷۳)
عمل کرنے سے پہلے اس پر غور کر لیا جائے:
حضرت مالک بن سعد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ہے کہ ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض پر عمل کرتا ہے جبکہ دیگر فرائض کو ا س نے ضائع کر دیا تو شیطان اسے ا س ایک فرض کے بارے میں لگاتار امیدیں دلاتا رہتا ہے اور ا س کے لئے وہ عمل مُزَیَّن کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں دیکھتا، لہٰذا تم کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے غور کر لو کہ تم ا س عمل کے ذریعے کیا چاہتے ہو،اگر وہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو تو اسے کر لو اور اگر کسی اور کے لئے ہو تو اپنے نفس کو مشقت میں مت ڈالو کہ تمہیں اس سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے لئے کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پاکیزہ کلام اسی کی طرف بلند ہوتا ہے اور نیک عمل کو وہ بلند کرتا ہے۔
( در منثور، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۹-۱۰)
{وَ الَّذِیْنَ یَمْكُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ: اور وہ لوگ جو برے مکرو فریب کرتے ہیں ۔} اس آیت میں مکر کرنے والوں سے مراد وہ قریش ہیں جنہوں نے دارُالنَّدْوَہ میں جمع ہو کر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں قید کرنے ، قتل کرنے اور جلاوطن کرنے کے مشورہ کئے تھے۔اس کا تفصیلی بیان سورۂ اَنفال کی آیت نمبر130 کی تفسیر میں ہوچکا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو برے مکرو فریب کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے اور ان کا مکر وفریب برباد ہوگا اور وہ اپنے فریب میں کامیاب نہ ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے شرسے محفوظ رہے اور اُنہوں نے اپنی مَکاریوں کی سزائیں پائیں کہ بدر میں قید بھی ہوئے، قتل بھی کئے گئے اور مکہ مکرمہ سے نکالے بھی گئے۔( روح البیان،فاطر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۲۶)