Home ≫ ur ≫ Surah Fatir ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِـعُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ(22)اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ(23)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ: اور زندہ اور مردے برابر نہیں ۔} اس آیت میں زندوں سے مراد مومنین یا علماء ہیں اور مُردوں سے کفار یا جاہل لوگ مراد ہیں ،ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ ’’ بیشک اللہ سنا تا ہے جسے چاہتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی ہدایت منظور ہو اسے اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق عطا فرماتا ہے۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۵۳۳، جلالین، فاطر، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۳۶۶، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ: اور تم انہیں سنانے والے نہیں جوقبروں میں پڑے ہیں ۔} آیت کے اس حصے میں کفارکو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اُٹھا سکتے اور نصیحت قبول نہیں کر سکتے، بد انجام کفار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
یاد رہے کہ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر اِستدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کفار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سننا ہے جس پر ہدایت کا نفع مُرَتَّب ہو، اور جہاں تک مُردوں کے سننے کا تعلق ہے تو یہ کثیر اَحادیث سے ثابت ہے۔
نوٹ: اس مسئلے کی تفصیل سورۂ نمل کی آیت نمبر80میں گزر چکی ہے ۔
{اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ: تم تو یہی ڈر سنانے والے ہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی ذمہ داری صرف تبلیغ کر دینا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا دینا ہے ،اب اگر سننے والا آپ کی نصیحتوں پر غور کرے اور قبول کرنے کے لئے سنے تو نفع پائے گا اور اگر وہ کفر پر قائم رہنے والے منکرین میں سے ہو اور آپ کی نصیحت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے تواس میں آپ کا کچھ حَرج نہیں بلکہ وہی محروم ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۹۷۶-۹۷۷، روح البیان، فاطر، تحت الآیۃ: ۲۳، ۷ / ۳۳۹، ملتقطاً)