Home ≫ ur ≫ Surah Fussilat ≫ ayat 11 ≫ Translation ≫ Tafsir
ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًاؕ-قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىٕعِیْنَ(11)
تفسیر: صراط الجنان
{ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ: پھر اس نے آسمان کی طرف قصد فرمایا۔} اس آیت میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…زمین کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق آسمان کو پیدا کرنے کی طرف قصد فرمایا۔
آیت کے اس حصے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پہلے زمین اور اس پر موجود دیگرچیزوں کی تخلیق ہوئی اور اس کے بعد آسمانوں کو پیدا کیا گیا جبکہ سورہِ نازعات کی آیت نمبر27تا32میں یہ مذکور ہے کہ پہلے آسمانوں کو پیدا کیا گیا اس کے بعد زمین کو پھیلایا گیا اور اس میں پہاڑ وغیرہ دیگر چیزیں پیدا کی گئیں ، ان دونوں سورتوں کی آیات میں بیان کی گئی چیزیں بظاہر ایک دوسرے کے مخالف نظر آتی ہیں اور ا س ظاہری اختلاف کو دور کرنے کے لئے مفسرین نے مختلف جوابات دئیے ہیں ،ان میں سے ایک واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دودن زمین کو گول دائرے کی صورت میں پیدا فرمایا،پھر اس کے بعد آسمانوں کو پیدا فرمایا،پھر آسمان کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو پھیلایا ،تو تمام چیزو ں کی تخلیق 6 دنوں میں ہوئی اور زمین کو پھیلانا اس کے بعد ہوا، لہٰذا ان آیتوں میں کوئی اختلاف نہیں ۔( صاوی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۱۸۴۳)
(2)…آیت میں دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ آسمان دھواں تھا۔مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ دھواں پانی کا بخار تھا اور اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا،پھر اللہ تعالیٰ نے پانی میں حرکت پیدا فرمائی (اور موجیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں ) تو اس سے جھاگ پیدا ہوئی اور اس جھاگ سے دھواں نکلا، پھر جھاگ تو پانی کی سطح پر باقی رہی اور ا س سے خشکی پیدا کی گئی اوراس خشکی سے زمین کو بنایا گیا، جبکہ دھواں بلند ہوا اور اس سے آسمانوں کو پیدا کیا گیا۔( جمل، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۲، ۷ / ۹)
(3)…اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین دونوں سے فرمایا کہ تم خوشی یا ناخوشی سے آجاؤ۔دونوں نے عرض کی: ہم خوشی کے ساتھ حاضر ہوئے۔ اس کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اس سے مراد یہ ہے کہ اے آسمان اور زمین !میں نے تم میں جو مَنافع اور مَصالح پیدا فرمائے ہیں انہیں لے آؤ اور میری مخلوق کے لئے انہیں ظاہر کر دو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے سورج،چاند اور ستاروں کو طلوع کر دو اور اپنی ہواؤں اور بادلوں کو جاری کر دو اور زمین سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی نہروں کو رواں کر دو اور اپنے درختوں اور پھلوں کو نکال دو اور یہ کام خوشی سے کرو یا ناخوشی سے (تمہیں بہر حال ایسا کرنا ہے) آسمان اور زمین نے عرض کی:ہم خوشی سے ایسا کرتے ہیں ۔( تفسیر قرطبی، فصلت، تحت الآیۃ: ۱۱، ۸ / ۲۴۹، الجزء الخامس عشر)