banner image

Home ur Surah Fussilat ayat 40 Translation Tafsir

حٰمٓ اَلسَّجْدَۃ (فُصِّلَت)

Fussilat

HR Background

اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(40)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک وہ جو ہماری آیتوں میں ٹیڑھے چلتے ہیں ہم سے چھپے نہیں تو کیا جو آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بھلا یا جو قیامت میں امان سے آئے گا جو جی میں آئے کرو بے شک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں وہ ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں تو کیا جسے آ گ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت میں امان سے آئے گا۔ تم جو چاہو کرتے رہو،بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا: بیشک وہ جو ہماری آیتوں  میں  سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں ۔} اس سے پہلی آیتوں  میں  بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلانا بہت بڑ امنصب اور بہت اعلیٰ مرتبہ ہے ،پھر بیان ہو اکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیّت کے دلائل بیان کر کے بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلایا جاتا ہے اور اب یہاں  سے اللہ تعالیٰ کی آیتوں  کے بارے میں  ٹیڑھی راہ چلنے والوں  کو ڈانٹا جا رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک وہ لوگ جو ہماری آیتوں  میں  سیدھی راہ سے ہٹتے ہیں  وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں  ہیں  ،ہم انہیں  اس کی سزا دیں  گے، تو کیاوہ مُلحِد کافر جسے آ گ میں  ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ سچے عقیدے والا مومن جو قیامت میں  امان سے آئے گا، بے شک یہ مومن ہی بہتر ہے، اور جب تم نے جان لیا کہ آگ میں  ڈالا جانے والا اور قیامت کے دن امان پانے والا دونوں  آپس میں  برابر نہیں  تو اب تمہاری مرضی ہے کہ تم چاہے وہ کام کرو جن کی وجہ سے تمہیں  جہنم کی آگ میں  ڈال دیا جائے یا وہ کام کرو جن کی وجہ سے تمہیں  قیامت کے دن امان نصیب ہو اور ان میں  سے جس کام کو چاہو دوسرے پر ترجیح دو کیونکہ تمہارے کاموں  کا نفع یا نقصان تمہیں  ہی ہو گا اور یاد رکھو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے کام دیکھ رہا ہے اور وہ تمہیں  تمہارے اعمال کے مطابق جزا دے گا۔( تفسیرکبیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۹ / ۵۶۸، روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۲۶۸-۲۶۹، قرطبی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۸ / ۲۶۶، الجزء الخامس عشر، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ کی آیتوں  میں  اِلحاد کی مختلف صورتیں :

            مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں  میں  اِلحاد کی مختلف صورتیں  بیان فرمائی ہیں  ،ان میں  سے 3صورتیں  درج ذیل ہیں ،

(1)…قرآنِ مجید کی آیات کی تاویل بیان کرنے میں  صحیح اور سیدھی راہ سے عدول اور اِنحراف کرتے ہوئے انہیں  باطل معانی پر محمول کرنا۔

(2)…قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں  ایسی باتیں  کرنا یا انہیں  سن کر ایسا کام کرنا جو ان کی شان کے لائق نہیں  جیسے انہیں  جادو یا شعر بتانا یا انہیں  جھٹلانایا آیات کو سن کر شوروغل کرنا وغیرہ۔

(3)…قرآنِ مجید میں  بیان گئے توحید و رسالت کے دلائل پر اعتراضات کرنا اور ان سے منہ پھیر لینا۔( روح المعانی، فصلت، تحت الآیۃ: ۴۰، ۱۲ / ۵۱۷)

            اس آیت میں  ان لوگوں  کے لئے بڑی عبرت ہے جو قرآنِ مجید کی آیات کے اپنی مرضی کے مطابق معنی بیان کرتے ہیں  اور قرآنِ پاک کے صحیح اورحقیقی معنی اور مفہوم سے ہٹ کر اپنی مرضی کی تاویلیں  کرتے رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ انہیں  ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے،اٰمین۔

بناوٹی اور جاہل صوفیاء کے لئے درسِ عبرت:

            اس آیتِ مبارکہ میں  ان لوگوں  کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو زہد،تقویٰ اور پرہیز گاری کا اظہار کرتے ہیں ، کشف کے اونچے مَراتب پر فائز ہونے اور اِلہام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  ،لوگوں  میں  اپنی روحانیّت اور کرامتوں  کا بڑے مُنَظّم طریقے سے چرچا کرتے اور مالدارافراد کو اپنی طرف مائل کرنے کوششیں  کرتے ہیں  ،علماءِ کرام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے،ان سے عداوت اور دشمنی رکھتے اور لوگوں  کو ان سے مُتَنَفّر کرتے ہیں  ، علم اور معرفت کی حقیقی دولت سے خالی ہوتے ہیں  اور اپنی رائے سے قرآنِ مجید کی تفسیر بیان کرتے اوراَحادیث کی اپنی طرف سے تشریح کرتے ہیں ، نیز قرآنِ مجیدکی آیات کے اپنی طرف سے ایسے باطنی معنی بیان کرتے ہیں جن کا باطل ہونا بالکل واضح ہوتا ہے۔ایسے لوگوں  کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں  بھی بہت عبرت ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’آخری زمانے میں  کچھ ایسے لوگ نکلیں  گے جو دین کے ذریعے دنیا کمائیں  گے ،وہ لوگو ں  کیلئے بھیڑ کی نرم کھال کا لباس پہنیں  گے ، ان کی زبانیں  چینی سے زیادہ میٹھی ہوں  گی اور ان کے دل بھیڑیوں  کے دلوں  کی طرح ہوں  گے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ کیا وہ (میرے حِلم اورمیری طرف سے ملنے والی مہلت سے) دھوکہ کھا رہے ہیں  یا وہ (میری مخالفت کر کے) مجھ پر جرأت کر رہے ہیں  ،مجھے اپنی قسم!میں  ان لوگوں  پر ان میں  سے ہی فتنہ مُسَلّط کر دوں  گا جو ان میں  سے دانشور و سمجھدار لوگوں  کو حیران کر دے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد، ۶۰-باب، ۴ / ۱۸۱، الحدیث: ۴۲۱۲)

            حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کی شرح میں  فرماتے ہیں  : کہ آخری زمانے میں  کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں  گے جو لوگوں  کے سامنے دین کے احکام پر عمل کر کے دنیا والوں  کودھوکہ دیں  گے اور ان سے دنیا کا مال بٹوریں  گے ،لوگوں  کو دکھانے کے لئے اون کا لباس پہن کر صوفی بنیں  گے،ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کریں  گے اور ان کے سامنے عاجزی و اِنکساری کا اظہارکریں  گے تاکہ لوگ انہیں  عابد و زاہد ، دنیا سے کنارہ کَشی کرنے والا اور آخرت کی طرف رغبت رکھنے والا سمجھیں  ،لوگ ان کے مرید بنیں  اور ان کے حالات دیکھ کر ان کے معتقد بن جائیں ۔ ان کی زبانیں  تو چینی سے زیادہ میٹھی ہوں  گی لیکن ان کے دل دنیا اور منصب کی محبت میں ، پرہیزگاروں  (اور خدا تَرس علمائ) سے عداوت اور بغض رکھنے میں  ،جانوروں  جیسی صفات اور شہوات کے غالب ہونے میں  بھیڑیوں  کی طرح سخت ہو ں  گے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ کیا یہ جانتے نہیں  کہ میں  انہیں  ڈھیل دے رہا ہوں  اور یہ میرے عذاب سے بے خوف ہو کر دھوکا کھا رہے ہیں  ،کیا یہ میری ناراضی اور میرے عذاب سے ڈرتے نہیں  اور کیا یہ لوگوں  کے سامنے نیک اعمال کر کے انہیں  دھوکہ دے کر میری مخالفت پر جرأت کر رہے ہیں  ،مجھے اپنی ذات و صفات کی قسم!میں  ان لوگوں  پر ان میں  سے ہی بعض افراد کو بعض پر غلبہ دے کر ایسا فتنہ مُسَلّط کردوں  گا جسے دیکھ کر ان میں  سے دانشور و سمجھدار شخص بھی حیران رہ جائے گا اور وہ اسے دور کرنے پر قادر نہ ہو گا اور نہ ہی اس سے خلاصی پا سکے گا اور نہ ہی اس سے کہیں  فرار ہو سکے گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الرقاق، باب الریاء والسمعۃ، الفصل الثانی، ۹ / ۱۸۲-۱۸۳، تحت الحدیث: ۵۳۲۳)

            اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں  کو اپنا خوف نصیب کرے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔