Home ≫ ur ≫ Surah Fussilat ≫ ayat 51 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖۚ-وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ(51)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ: اورجب ہم آدمی پر احسان کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے۔} اس سے پہلی آیت میں کفار کے قبیح اَقوال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کے قبیح اَفعال بیان کئے جا رہے ہیں ۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب ہم کافر انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ اس احسان کاشکر ادا کرنے سے منہ پھیر لیتا ہے اور اس نعمت پر اِترانے لگتاہے اور نعمت دینے والے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کو بھول جاتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی یاد سے تکبر کرتا ہے اور جب اسے کسی قسم کی پریشانی ،بیماری یا ناداری وغیرہ کی تکلیف پیش آتی ہے تو اس وقت وہ خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ، روتا اور گِڑگڑاتا ہے اور لگاتار دعائیں مانگے جاتا ہے۔( مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۱۰۷۹، ملخصاً)
راحت میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے:
کافر کی اس طرح کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖۚ-وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَـٴُـوْسًا‘‘(بنی اسرائیل:۸۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ہم انسان پر احسان کرتے ہیں تو وہ منہ پھیرلیتا ہے اور اپنی طرف سے دور ہٹ جاتا ہے اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ راحت کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کو بھول جانا اور صرف مصیبت کے اَیّام میں دعا کرنا کفار کا طریقہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے کیونکہ یہاں دعا مانگنے پر عتاب نہیں کیا گیا بلکہ راحت میں دعا نہ مانگنے پر عتاب کیا گیاہے۔نیز یہ عمل مَصائب و آلام کے وقت مانگی جانے والی دعاؤں کے قبول نہ ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں ا س کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ صحت اور کشادگی کی حالت میں کثرت سے دعا کیا کرے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء انّ دعوۃ المسلم مستجابۃ، ۵ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۳۹۳)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ راحت میں ،آسانی میں ،تنگی میں ،مشکلات میں اور مَصائب و آلام کے وقت الغرض ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں اور اس سلسلے میں کافروں کی رَوِش پر چلنے سے بچیں ۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مصیبتوں کا سامنا تسلیم و رضا اور صبر و اِستقلال سے کریں :
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ بندے پر نازل ہونے والی ہر بلا،مصیبت،نعمت،رحمت، تنگی اور آسانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے تو اگر بندہ مَصائب و آلام،مشکلات،تنگیوں ،سختیوں اور آسانیوں وغیرہ کا سامنا تسلیم و رضا،صبر واِستقلال اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کرے تو وہ ہدایت پانے والوں اور مُقَرّب بندوں میں سے ہے اور اگر ان کا سامنا کفر کے ساتھ کرے اور مصیبتوں وغیرہ میں شکوہ شکایت کرنا شروع کر دے تو وہ بد بختوں ، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے والوں میں سے ہے۔( روح البیان، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۸ / ۲۸۰، ملخصاً)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ زندگی میں آنے والی مشکلات وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں اور ہر مشکل اورمصیبت میں اچھی طرح صبر کیا کریں ۔حدیثِ قُدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندے کی طرف اس کے بدن میں ، اس کے مال میں یا اس کی اولاد میں کوئی مصیبت بھیجوں ،پھر وہ ا س مصیبت کا سامنا اچھی طرح صبر کرنے کے ساتھ کرے تو میں قیامت کے دن ا س کے لئے میزان نصب کرنے یا اس کا نامۂ اعمال کھولنے سے حیا فرماؤں گا۔( مسند شہاب قضاعی، اذا وجّہت الی عبد من عبیدی مصیبۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۳۰، الحدیث: ۱۴۶۲)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافِیَّت نصیب فرمائے اور اگر زندگی میں کوئی مشکل یا مصیبت آئے تو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔