Home ≫ ur ≫ Surah Fussilat ≫ ayat 54 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْؕ-اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطٌ(54)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَاۤ اِنَّهُمْ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْ لِّقَآءِ رَبِّهِمْ: سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب سے ملنے کے متعلق شک میں ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ سن لو! بیشک یہ کافر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے بارے شک میں ہیں کیونکہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اورقیامت کے قائل نہیں ہیں ،اسی لئے وہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں ،نہ اس کا علم رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے ڈرتے ہیں بلکہ وہ ان کے نزدیک ایک باطل چیز ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں حالانکہ قیامت ضرور واقع ہوگی اور اس کےواقع ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔ انہیں خبردار ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اورقدرت سے ہر چیز کوگھیرے ہوئے ہے،کوئی چیز ا س کے علم کے اِحاطے سے باہر نہیں اور اس کی معلومات کی کوئی انتہاء نہیں تو وہ انہیں ان کے کفر اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملنے کے متعلق شک کرنے پر سزا دے گا۔(جلالین، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۴۰۱، مدارک، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ص۱۰۸۰، ابن کثیر، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۷ / ۱۷۱، خازن، فصلت، تحت الآیۃ: ۵۴، ۴ / ۹۰، ملتقطاً)
شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر دھوکہ دیتا ہے :
اس آیت میں بیان ہوا کہ کفار آخرت کے بارے شک میں مبتلا ہیں البتہ کچھ مسلمانوں کی عملی حالت سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی آخرت کے بارے میں دھوکے کا شکار ہیں ، جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آخرت کے بارے میں شک ڈال کر اس کے ذریعے دھوکہ دیتاہے اور اس کا علاج یا تو تقلیدی یقین ہے یا باطنی بصیرت و مشاہدہ ہے اور وہ لوگ جو اپنے عقائد اور زبان سے مومن ہیں ، جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ضائع کر دیتے ہیں ،نیک اعمال کو چھوڑدیتے ہیں اور خواہشات اور گناہوں کا لباس پہن لیتے ہیں تو اس دھوکے میں وہ بھی کفار کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی البتہ مومن کا معاملہ ذرا ہلکا اور آسان ہے کیونکہ اس کا ایمان اسے دائمی عذاب سے محفوظ رکھتا ہے،لہٰذا وہ جہنم سے نکل جائیں گے اگر چہ کچھ وقت کے بعد ہو، لیکن دھوکے میں یہ بھی ہیں ، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کی طرف مائل ہوئے اور اس کو ترجیح دی اور کامیابی کے لئے محض ایمان کافی نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى‘‘(طٰہٰ:۸۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک میں اس آدمی کو بہت بخشنے والا ہوں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر رہا۔
اورارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘(اعراف:۵۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
پھر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔( بخاری، کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱، الحدیث: ۵۰)
اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ’’وَ الْعَصْرِۙ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘(عصر:۱۔۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: زمانے کی قسم۔ بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔ مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
تو پورے قرآنِ پاک میں مغفرت کا وعدہ ایمان اور نیک اعمال سے مُنسَلِک ہے صرف ایمان کے ساتھ نہیں ۔ تو وہ لوگ بھی دھوکے میں ہیں جو دُنْیَوی زندگی پر مُطمَئن اور خوش ہیں ، اس کی لذّات میں ڈوبے ہوئے اور اس سے محبت کرنے والے ہیں اورصرف دُنْیَوی لذّات کے فوت ہونے کے خوف سے موت کو نا پسند کرتے ہیں ۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۶۸-۴۶۹)
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور کثرت سے نیک اعمال کر کے اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔