ترجمہ: کنزالایمان
بلند درجے دینے والا عرش کامالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہے کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
۔(اللہ ) بلند درجات دینے والا، عرش کامالک ہے۔ وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے تا کہ وہ ملنے کے دن سے ڈرائے۔
تفسیر: صراط الجنان
{رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ: بلند درجات دینے والا، عرش کامالک ہے۔} یہاں سے اللہتعالیٰ کی عظمت و جلال والی مزید صفات بیان کی جا
رہی ہیں ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اللہعَزَّوَجَلَّتنہا معبود ہے،اس کی شان
یہ ہے کہ وہ انبیاء عَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُوَالسَّلَام، اولیاء اورعلماء رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْکو جنت
میں بلند درجات دینے والا اورعرش جیسی عظیم چیز کامالک ہے۔وہ اپنے
بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کا منصب عطا فرماتا ہے اور جس کو نبی بناتا ہے
اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہتعالیٰ کی مخلوق کو قیامت
کے دن کا خوف دلائے، اور قیامت کا دن وہ ہے جس میں آسمان والے، زمین
والے اور اوّلین و آخرین ملیں گے ، روحیں جسموں سے اور ہر عمل کرنے والا اپنے عمل
سے ملے گا۔
رفیع
کا ایک معنیمُرْتَفِعْبھی ہے،یعنی اللہتعالیٰ خود بہت شان اوربلنددرجہ والاہے کہ اللہتعالیٰ اپنے جمال اور جلال کی تمام صفات میں اور
اپنی وحدانیّت کے اعتبارسے تمام موجودات میں ہرلحاظ سے بلنداوربرترہے اوروہ ہر چیز
سے بے پرواہ ہے اورہم سب اس کے محتاج ہیں ۔(تفسیرکبیر
، المؤمن ، تحت الآیۃ :۱۵،۹ / ۴۹۷-۴۹۹، خازن ، حم المؤمن، تحت الآیۃ:۱۵،۴ / ۶۸، مدارک، غافر، تحت الآیۃ:۱۵، ص۱۰۵۴، ملتقطاً)
سورۂ مومن مکی سورت ہے البتہ اس کی آیت نمبر 56’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ
فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ‘‘ اور آیت نمبر 57’’لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ‘‘ یہ دونوں آیتیں مدنی ہیں ۔ (جلالین مع
صاوی، سورۃ غافر، ۵ / ۱۸۱۳)
اس سورت کے دو نام ہیں (1)مومن۔اس کا معنی ہے ایمان لانے والا اوراس سورت
کی آیت نمبر28میں فرعون کی قوم کے ایک مومن شخص کا ذکر ہے، ا س مناسبت سے اسے
’’سورۂ مومن‘‘ کہتے ہیں ۔(2)غافر۔اس کا معنی ہے بخشنے والا اور ا س سورت کی آیت
نمبر3 میں اللہ تعالیٰ کا یہ وصف بیان کیاگیا کہ وہ گناہ
بخشنے والا ہے،اس وجہ سے اسے ’’سورۂ غافر‘‘ کے نام سے مَوسوم کیا گیا۔
(1)…حضرت ابوہریرہرَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسولُاللہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے صبح اٹھ کر (سورۂ مومن کی آیت نمبر1)’’حٰمٓ‘‘سے لے کر (آیت نمبر 3 کے آخر) ’’اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ تک پڑھا اورآیت الکرسی پڑھی تو ان کی برکت سے صبح سے شام تک اس
کی حفاظت کی جائے گی اورجس نے انہیں شام میں پڑھا تو ان کی برکت سے صبح تک اس کی
حفاظت کی جائے گی ۔ (سنن
ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی، ۴ / ۴۰۲، الحدیث: ۲۸۸۸)
(2)…حضرت خلیل بن مُرَّہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُاللہصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ حوامیم
(یعنی حٰمٓسے شروع ہونے والی سورتیں ) 7 ہیں اور جہنم کے دروازے بھی 7 ہیں ۔ ان سورتوں میں سے ہر ایک سورت
جہنم کے اُن دروازوں میں سے ہر ایک دروازے پر جا کر کہتی ہے’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! اُس شخص کو اِس دروازے سے داخل نہ کرناجومجھ پرایمان رکھتاتھااور
میری تلاوت کیا کرتاتھا۔(شعب
الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان... الخ، ۲
/ ۴۸۵، الحدیث: ۲۴۷۹)
(3)…حضرت عبداللہ بن
مسعودرَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حٰمٓ سے شروع ہونے والی سورتیں قرآنِ مجید کی زینت ہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر،
تفسیر سورۃ حمٓ المؤمن، ۳ / ۲۲۳، الحدیث: ۳۶۸۶)
سورۂ مومن چونکہ مکی سورت ہے اس لئے دیگر سورتوں کی طرح ا س کا بھی
مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسے توحید،نبوت و رسالت اور
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر دلائل کے ساتھ کلام کیا گیا ہے،ان عقائد کے
منکروں کو عذاب کی وعیدیں سنائی گئی ہیں اور بت پرستی کا رد کیاگیاہے۔نیز اس سورت
میں یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآنِ پاک ا س رب
تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے جوکہ عزت والا، علم والا،گناہ بخشنے والا ، توبہ
قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا اوربڑے انعام عطا فرمانے والاہے،نیز باطل کے
ذریعے جھگڑنے والے کفار کی مذمت بیان کی گئی اور عرش اٹھانے والے فرشتوں کے اوصاف
بتائے گئے۔
(2)…یہ بتایا گیا کہ قیامت کے دن کفار اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیں
گے اور عذاب کی شدت کی وجہ سے جہنم سے نکالے جانے کی فریاد کریں گے اور ان کی
فریادکو رد کر دیا جائے گا،نیزاللہ تعالیٰ
کے موجود اور قادرہونے پر دلائل دئیے گئے،قیامت کی ہَولْناکیوں سے خوف دلایا گیا
اور اس دن کی سختیوں سے کفار کو ڈرایا گیا ہے۔
(3)…انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلانے کی وجہ سے سابقہ
امتوں کی ہلاکت کے بارے میں بیان کر کے کفارِ مکہ کو ڈرایا گیا کہ اگر وہ اپنی
رَوِش سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی اگلے لوگوں جیساہو سکتا ہے اور اس سلسلے
میں حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَاماور فرعون ،ہامان اور قارون کا واقعہ بیان کیاگیا اور اس میں فرعون
کی قوم کے ایک مومن شخص کا بطورِ خاص تذکرہ کیا گیا۔
(4)…دنیا اور آخرت میں کافروں کی رسوائی کا اعلان کیاگیا اور یہ
بتایا گیاکہ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد کی جائے گی۔
(5)… نبی کریمصَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں پر صبر کرنے کی تلقین
کی گئی کہ جس طرح حضرت موسیٰعَلَیْہِالصَّلٰوۃُوَالسَّلَاماور دیگر انبیاء ِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوموں کی اَذِیَّتوں پر صبر فرمایا اسی طرح آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی صبر فرمائیں ۔
(6)…مسلمان اور کافر کی ایک مثال بیان کی گئی کہ مسلمان ایسا ہے جیسے
بینا یعنی دیکھنے والا جبکہ کافر ایسا ہے جیسے اندھا اوراس کے بعد بندوں پر کی گئی
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بیان کی گئیں ۔
(7)…سورت کے آخر میں مشرکین کا اُخروی انجام بیان کیا گیا اور سابقہ
قوموں کے دردناک انجام کو دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی۔
سورۂ
مومن کی اپنے سے ماقبل سورت’’زُمَر‘‘کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ دونوں
سورتوں میں قیامت کے اَحوال اور حشر کے میدان میں کفار کے اَحوال بیان کئے گئے ہیں
۔دوسری مناسبت یہ ہے کہ سورۂ زُمَر کے آخر میں کافروں کی سزا اور متقی
مسلمانوں کی جزا ء بیان کی گئی اور سورہ ٔ مومن کے شروع میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ
گناہوں کوبخشنے والا ہے تاکہ کافر کو کفر چھوڑنے اور ایمان قبول کرنے کی ترغیب
ملے۔