Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(17)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ
نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ: آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔} یعنی قیامت کے
دن ہر نیک اور برے انسان کو اس کی دنیا میں کی ہوئی
نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور نیک شخص کے ثواب میں
کمی کر کے یا برے شخص کے عذاب میں زیادتی کر کے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔بے شک
اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ
وہ جلد حساب لینے والا ہے۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۱۷، ۸ / ۱۶۸-۱۶۹)
حق داروں کو ان کے حقوق دنیا میں ہی ادا کر دینے
کی ترغیب:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ
دنیا میں جیسے اعمال کئے ہوں گے آخرت میں ویسا ہی بدلہ دیاجائے گا اور یاد رہے کہ
اس دن ان لوگوں کو بھی ان کے حقوق دلائے جائیں گے جن کے حقوق دنیا میں ضائع کئے
گئے ہوں گے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن اُنیس رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن
لوگوں کوننگے بدن،بے ختنہ شدہ اورمال کے بغیر اٹھائے گا۔ہم نے عرض کی:بُہْم کیا ہے ؟ارشاد فرمایا’’جن کے پاس کوئی چیز نہ
ہو۔پھر اللہ تعالیٰ لوگوں کو بلند
آواز سے ندا فرمائے گا: جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح قریب والے سنتے ہیں(ارشاد
فرمائے گا:)میں بادشاہ ہوں ، میں بدلہ لینے والا ہوں ، کوئی جنتی اس وقت تک جنت
میں نہیں جا سکتا ،یونہی کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہیں جا سکتا یہاں تک کہ
میں اِس سے اُس حق کا بدلہ نہ لے لوں جو کسی کا اس کے ذمے ہے حتّٰی کہ ایک تھپڑ کا
بدلہ بھی۔ہم نے عرض کی:یہ کیسے ہو گا جبکہ ہم تو اس وقت ننگے بدن اور کنگال ہوں گے
؟ارشاد فرمایا’’ یہ بدلہ نیکیوں اور برائیوں کے ذریعے ہو گا (یعنی حق داروں کو
اس شخص کی نیکیاں دے دی جائیں گی یاحق داروں کے گناہ اس کے ذمے ڈال دئیے جائیں گے) پھر
رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا
كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر
سورۃ حم المؤمن، یحشر الناس غرلا بہما، ۳ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۶۹۰)
اورحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’شیطان اس بات سے ناامید ہو
گیا ہے کہ عرب کی سرزمین پر ا س کی پوجا کی جائے لیکن عنقریب وہ اِس سے کم اور
حقیر باتوں پر تم سے راضی ہو گا اور وہ ہلاکت خیز باتیں ہیں ،تو جس قدر ممکن ہو
ظلم سے بچو کیونکہ بندہ قیامت کے دن نیکیاں لائے گا اور اس کے خیال میں وہ اسے
نجات دینے والی ہوں گی لیکن ایک بندہ آ کر کہے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اُس شخص کی نیکیوں میں
سے کچھ مٹا دو،اسی طرح لوگ آتے رہیں گے (اور اس کی نیکیاں لے جاتے رہیں گے) حتّٰی
کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے مسافر جنگل میں اتریں
اور ان کے پاس لکڑیاں نہ ہوں ،اب وہ لوگ بکھر جائیں اور لکڑیاں جمع کر کے لائیں اور
تھوڑی ہی دیر میں وہ بہت بڑی آگ جلا کر اپنا مقصد حاصل کر لیں تو یہی معاملہ
گناہوں کاہے (کہ یہ نیکیوں کو اس طرح ختم کر دیں گے جس طرح آگ نے دیکھتے ہی
دیکھتے لکڑیاں جلا دیں )(مجمع الزوائد، کتاب التوبۃ،
باب فیما یحتقر من الذنوب، ۱۰ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۷۴۶۰)
اور امام محمد
غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’اے
مسکین شخص!اس دن کیا صورتِ حال ہوگی، جب تو اپنے نامہ ِاعمال کو نیکیوں سے خالی
دیکھے گا حالانکہ تو نے ان کے لیے سخت مشقت اٹھائی ہوگی ،تم کہو گے: میری نیکیاں کہاں
ہیں ؟ تو جواب دیا جائے گا: وہ تو ان
لوگوں کی طرف منتقل ہوگئیں جن کے حقوق تمہارے ذمہ تھے اور تم دیکھو گے کہ تمہارا
نامہ ِاعمال برائیوں سے بھرا ہوا ہے کہ ان سے بچنے کے لیے تم نے بہت زیادہ مشقّت
اٹھائی ہوگی اور ان سے رکنے کے سبب تم نے بہت تکلیف برداشت کی ہوگی، تم کہو گے: اے
میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے یہ گناہ کبھی
نہیں کئے۔ جواب دیا جائے گا: یہ ان لوگوں کے گناہ ہیں جن کی تم نے غیبت کی ،جنہیں گالی
دی، جن سے برائی کا ارادہ کیا اور جن سے خرید و فروخت کے اعتبار سے، پڑوسی ہونے کے
ناطے سے، گفتگووغیرہ اور درس و تدریس کے اعتبار سے یا باقی معاملات میں تو نے ان
پر ظلم کیا۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر
الثانی... الخ، صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۲)
لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ
وہ ابھی سے اپنے نفس کا مُحاسبہ کر لے اور جن لوگوں کے حقوق اس کے ذمے
ہیں انہیں فوری طور پر ادا کر دے ۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’اپنے
نفس کے حساب (یا مُحاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ہر گناہ
سے سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں
جو کوتاہی کی ہے اس کا تدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے
واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو
اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے
ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت
میں جائے گا،اور اگر وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو
حقدار اس کا گھیراؤ کریں گے کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا اور کوئی اس کی
پیشانی کے بال پکڑے گا اور کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے
مجھ پر ظلم کیا اور کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی اور کوئی کہے گا: تم نے مجھ
سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری
لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے ایذا دی۔ کوئی کہے گا:
تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا۔ کوئی کہے گا: تو نے مجھ سے سودا کیا، تو
مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ۔کوئی کہے گا: تو نے اپنے
سامان کا نرخ بتاتے ہوئے جھوٹ بولا۔ کوئی کہے گا تو نے مجھے محتاج دیکھا اور تو
مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں مظلوم
ہوں اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالَحَت کی
اور میرا خیال نہ کیا۔تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حقداروں نے تیرے بدن میں ناخن
گاڑ رکھے ہوں گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے
باعث حیران و پریشان ہوگا، حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں جس سے ایک درہم کا
معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت
کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں
کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید
وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ
کا یہ کلام تجھے سنائی دے گا : ’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا
كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ‘‘(مومن:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: آج ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا
جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔
اُس
وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان سے جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے
گا،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَا تَحْسَبَنَّ
اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ
لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا
یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ(۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ‘‘(ابراہیم:۴۲۔۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے سننے والے!) ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم
کررہے ہیں۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں
کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جارہے ہوں گے،
ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔اور لوگوں کو
ڈراؤ۔
آج جب تو لوگوں کی عزتوں کے
پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس
قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا ۔۔۔۔
اس وقت تو مُفلِس، فقیر ،عاجز اور ذلیل ہوگا نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی
کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت
کی تجھ سے لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں گے اور یہ ان
کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔(احیاء علوم الدین، کتاب
ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی... الخ،
صفۃ الخصماء ورد المظالم، ۵ / ۲۸۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے،حق داروں کو ان کے حقوق
ادا کرنے یا ان سے معاف کرو الینے اور اُخروی حساب کی تیاری کرنے کی توفیق عطا
فرمائے،اٰمین۔