Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 24 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(23)اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ قَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ(24)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا۔} اس سے پہلی آیات میں ان کافروں کا ذکر کر کے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی جنہوں نے کفارِ مکہ سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور اس آیت سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کر کے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جب انہیں معجزات اور روشن دلیل کے ساتھ فرعون،ہامان اور قارون کی طرف بھیجا گیا تو ان لوگوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اور انہیں جادو گر اور بڑا جھوٹاکہا۔ (تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۳-۲۴، ۹ / ۵۰۶)
یہاں آیت نمبر 24سے متعلق دو باتیں ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون، ہامان اور قارون کے ساتھ ساتھ ان کی قوم کی طرف بھی بھیجے گئے تھے جبکہ یہاں صرف ان تینو ں کا ذکر ہوا ،ا ن کی قوم کا ذکر نہیں ہوا،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :فرعون بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر اور پوری قوم چونکہ بادشاہ اور وزیر کے تحت ِتَصَرُّف ہوتی ہے اور (اس زمانے میں ) لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوا کرتے تھے اس لئے یہاں (قوم کی بجائے) فرعون اور ہامان کا ذکر کیا گیااور قارون چونکہ اپنے مال اور خزانوں کی کثرت کے اعتبار سے بادشاہ کی طرح تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرعون اور ہامان کی طرف بھیجنے کے بعد قارون کی طرف بھیجا گیا تھا کیونکہ قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا بیٹا تھا،شروع میں مومن تھا،بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ تورات کا حافظ تھا،پھر مال و دولت کی وجہ سے اس کا حال بدل گیا اور سامری کی طرح منافق ہو گیا تو یہ کفر اور ہلاکت میں فرعون اور ہامان کے ساتھ لاحق ہو گیا ا س لئے یہاں اس کا ذکر فرعون اور ہامان کے ساتھ کیا گیا۔( روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۴، ۸ / ۱۷۳)
(2)…قارون کے ظاہری حال سے یہ نہیں لگتا کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہا ہو کیونکہ اس کا اپنا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان بھی رکھتا تھا،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہنے کی نسبت اس کی طرف کیسے کی گئی؟اس کے جواب میں علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادو گر کہنے کی نسبت قارون کی طرف آخری اَمر کے اعتبار سے ہے۔( صاوی، غافر، تحت الآیۃ: ۲۴، ۵ / ۱۸۲۱)یعنی قارون شروع میں تو ایمان لایا جبکہ آخر میں منافق ہو گیاتو یہ بھی گویا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا کہنے میں فرعون اور ہامان کے ساتھ شریک ہو گیا، ا س لئے یہاں اس قول کی نسبت ان دونوں کے ساتھ ساتھ قارون کی طرف بھی کی گئی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اعلانیہ طور پر صرف فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اور جادوگر کہا ہو اور ان کی اس بات کے وقت بھی قارون صرف ظاہری طور پر ایمان کا دعویٰ کرتا ہو اورخفیہ طور پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتا ہو ،اس لئے یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھوٹا اورجادوگر کہنے کی نسبت ان تینوں کی طرف کی گئی ہو۔