Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 27 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ(27)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ: اور موسیٰ نے کہا: میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔} فرعون کی دھمکیاں سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’میں مُتکبِّروں اور منکرینِ قیامت کے مقابلے میں اس خدا کی پناہ لیتا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرعون کی سختیوں کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی تکبُّر والا کلمہ نہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہی اور اس پر بھروسہ کیا،یہی خدا شَناسوں کا طریقہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کو ہر ایک بلا سے محفوظ رکھا ۔یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارک جملوں سے معلوم ہونے والی چند فائدہ مند باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…لفظ ’’اِنِّیْ‘‘ تاکید پر دلالت کرتا ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ اپنی جان سے آفات اور شُرُور کو دور کرنے کا معتبر اور بہترین طریقہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کرنا ہے ۔
(2)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:’’میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ تو جس طرح قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے وقت مسلمان جب ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ‘‘ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اِخلاص کو شیطان کے وَسْوَسُوں سے بچا لیتا ہے بالکل اسی طرح جب آفتوں کا سامنا ہو اور انسانی شیطانوں (کی طرف سے تکلیف پہنچائے جانے)کا ڈر ہو اور اس وقت مسلمان یہ کہے ’’اَعُوْذُ بِاللہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ اسے ہر آفت اور خوف سے بچا لے گا۔
(3)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’تمہارے اور اپنے رب کی‘‘ یعنی گویا کہ بندہ یوں کہہ رہا ہے کہ ہر نقص و عیب سے پاک اللہ تعالیٰ ہی وہ ہے جس نے مجھے پالا،بھلائی کے درجات تک مجھے پہنچایا،آفات سے مجھے بچایا اور مجھے اتنی نعمتیں عطا کیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی شمار،تو جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی حقیقی مددگار نہیں تو عقل مند انسان کو چاہئے کہ وہ آفات کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ۹ / ۵۰۷-۵۰۸)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ان مبارک جملوں میں کیسی نفیس ہدایتیں ہیں ، یہ فرمانا کہ’’ میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں ‘‘ اور اس میں (یہ) ہدایت ہے (کہ)رب ایک ہی ہے ، یہ بھی ہدایت ہے کہ جو اس کی پناہ میں آئے اس پر بھروسہ کرے اور وہ اس کی مدد فرمائے(تو) کوئی اس کو ضَرَر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنا شانِ بندگی ہے اور ’’تمہارے رب ‘‘فرمانے میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر تم اس پر بھروسہ کرو تو تمہیں بھی سعادت نصیب ہو۔( خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۸۶۸)
دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے وہ کلمات بھی مفید ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمائے اور وہ کلمات بھی انتہائی فائدہ مند ہیں جو سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمائے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جب کسی قوم سے خطرہ ہوتا تو آپ یہ دعاارشادفرماتے تھے ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّانَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کے مقابلے میں ہم تجھے لاتے ہیں اوران کے شراورفسادسے تیری پناہ میں آتے ہیں ۔( سنن ابوداؤد، کتاب الوتر، باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۱۵۳۷)