Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 3 ≫ Translation ≫ Tafsir
غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ(3)
تفسیر: صراط الجنان
{ غَافِرِ الذَّنْۢبِ: گناہ بخشنے والا۔} اس آیت ِمبارکہ
میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مزید6اَوصاف
بیان فرمائے ہیں۔
(1)…وہ گناہ بخشنے والا
ہے۔جو مسلمان اپنے گناہوں سے
سچی توبہ کرتا ہے اس کے گناہوں کی بخشش کا تو اللہ تعالیٰ
نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں فرماتا البتہ توبہ کے
بغیر بھی اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے چاہے
گناہ بخش دے، اور یہ اس کا فضل و کرم اور احسان ہے ۔ مفسرین نے ’’غَافِرْ‘‘ کا ایک معنی ساتِر یعنی’’ چھپانے والا‘‘ بھی بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں اور
خطاؤں کو محض اپنے فضل سے دنیا میں چھپانے والا ہے اور قیامت کے دن بھی چھپائے گا
۔
(2)…وہ توبہ قبول فرمانے
والا ہے۔جو کافر اپنے کفر سے اور
جو مومن اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ
اپنے فضل سے ا س کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اگرچہ اس نے موت سے چند لمحے پہلے ہی
توبہ کیوں نہ کی ہو۔
(3)… سخت عذاب دینے والا
ہے۔اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے
کفر کی وجہ سے جہنم میں سخت عذاب دے گا، البتہ یاد رہے کہ بعض گناہگار مسلمان
بھی ایسے ہوں گے جن کے گناہوں کی بنا پر انہیں جہنم کے عذاب میں مبتلا
کیا جائے گا ۔
(4)…بڑے انعام والاہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بڑے انعام عطا فرمانے والا ہے۔
(5)…اس کے سوا کوئی معبود
نہیں ۔اس آیت
میں فضل و رحمت کے جو اَوصاف بیان ہوئے یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہیں ، اس کے علاوہ اور کسی کی ایسی صفات
نہیں ہیں اور جب اللہ تعالیٰ
کے علاوہ اور کوئی ایسے وصف نہیں رکھتا تو اس کے علاوہ کوئی اور
معبود بھی نہیں ہے۔
(6)…اسی کی طرف پھرنا ہے
۔جب قیامت کے دن
لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو سبھی نے اپنے اعمال کا حساب دینے
اور ان کی جزا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں حاضر ہونا ہے خواہ وہ خوشی سے جائے یا اسے جَبری طور پر لے کرجایا
جائے۔
گناہوں سے توبہ کرنے اور عملی حالت
سدھارنے کی ترغیب:
جب اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ گناہوں کو
بخشنے والا بھی ہے اورکافروں اور گناہگاروں کی توبہ قبول
فرمانے والا بھی ہے،سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور انعام و احسان فرمانے والا بھی
ہے ،وہی اکیلا معبود ہے اور سبھی کو اپنے اعمال کا حساب دینے اور ان کی جزا پانے
کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں حاضر ہونا بھی ہے، تو ہر کافر اور گناہگار مسلمان کو چاہئے کہ وہ
اپنے کفر اور گناہوں سے سچی توبہ کرے ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے، اس کے عذاب سے
ڈرتا اور اس سے پناہ مانگتارہے ،اس کے انعام اور احسان کو پانے کی کوشش
کرے،صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت
کرے اور آخرت میں ہونے والے حساب کی دنیا میں ہی تیاری
کرے۔انہی چیزوں کی ترغیب اور حکم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ
الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ
ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ
فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ
اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا
عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ
جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ
جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ‘‘(اٰل عمران:۱۳۵،۱۳۶)
ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب
کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی
مانگیں اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے
برے اعمال پر اصرار نہ کریں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی
طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے
نہریں جاری ہیں ۔ (یہ لوگ) ہمیشہ ان (جنتوں
) میں رہیں گے اور نیک اعمال کرنے والوں کا
کتنا اچھا بدلہ ہے۔
اور
ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا
قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا
عَظِیْمًا ‘‘(احزاب:۷۰،۷۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ سے
ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور
جو اللہ اور اس کے رسول کی
فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے
اور اپنی آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
حضرت
یزید بن اصم رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ سے
منقول ہے کہ ایک آدمی بڑاطاقتورتھااورشام کے لوگوں سے تعلق رکھتا
تھا ۔ حضرت عمرفاروق رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے
اسے اپنے پاس نہ پایا تواس کے بارے میں پوچھا۔ عرض کی گئی: وہ
تو شراب کے نشے میں دُھت ہے ۔حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کاتب کوبلایا
اوراس سے فرمایا:لکھو!عمربن خطاب کی جانب سے فلاں بن
فلاں کے نام، تم پرسلام ہو۔میں تمہارے سامنے اس اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان
کرتا ہوں جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَ
قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِۙ-ذِی الطَّوْلِؕ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا
هُوَؕ-اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ پھر آپ نے دعاکی اورجولوگ آپ کے پاس تھے
انہوں نے آمین کہی۔ انہوں نے اس آدمی کے حق
میں یہ دعاکی کہ اللہ تعالیٰ اس پرنظر
ِرحمت فرمائے اوراس کی توبہ قبول فرمائے۔ جب وہ خط اس آدمی تک پہنچا تووہ اسے
پڑھنے لگا اور ساتھ میں یوں کہتا ’’غَافِرِ الذَّنْۢبِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بخشش کاوعدہ کیاہے ۔ ’’وَ قَابِلِ التَّوْبِ
شَدِیْدِ الْعِقَابِ‘‘ اللہ تعالیٰ
نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا۔ ’’ذِی الطَّوْلِ‘‘ بہت زیادہ انعام فرمانے والاہے۔ ’’اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ‘‘ وہ بار بار اسے اپنے
اوپردہراتارہایہاں تک کے رونے لگا،پھراس نے گناہوں سے توبہ
کی اوربہترین توبہ کی ۔جب حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تک اس کا معاملہ پہنچاتوآپ نے فرمایا:تم
اسی طرح کیاکرو کہ جب تم کسی کو لغزش کی حالت میں دیکھو تو اسے درست
ہونے کا موقع دو،نیزاللہ تعالیٰ سے دعاکروکہ وہ
توبہ کرلے اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ۔( درمنثور، غافر، تحت الآیۃ: ۳، ۷ / ۲۷۰-۲۷۱)
اس
سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کسی کے گناہ
میں مبتلا ہونے کے بارے میں جاننے کے بعد اس کے ساتھ ایسا
سلوک کرتے ہیں جس سے وہ اپنے گناہوں سے باز آنے کی بجائے
اور زیادہ گناہوں پر بے باک ہو جاتا ہے، انہیں چاہئے کہ
گناہگار سے نفرت نہ کریں بلکہ اس کے گناہ سے نفرت کریں اور
ا سے اس طرح نصیحت کریں جس سے اسے گناہ چھوڑ دینے اور نیک اعمال کرنے
کی رغبت ملے ،وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کی
طرف مائل ہو اور پرہیزگار انسان بننے کی کوشش شروع کردے،نیز اس کی اصلاح اور توبہ
کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی رہے
،اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے
گناہوں سے توبہ اور نیک اعمال کرنے کی توفیق مل جائے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں گناہگار
مسلمانوں کی احسن انداز میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔