Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 4 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ(4)
تفسیر: صراط الجنان
{مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں ۔} یعنی قرآن مجید کو جھٹلانا،اس کی آیتوں کا انکار کرنا،قرآن کریم پر اعتراض کرنا،اسے جادو،شعر،کہانت اور سابقہ لوگوں کی کہانیاں کہنا کافروں کا ہی کام ہے۔
اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ پاک کے بارے میں جھگڑاکرنا کسی مومن کا کام نہیں بلکہ کافر کا کام ہے ۔ یہاں قرآنی آیات میں جھگڑا اور اختلاف کرنے سے متعلق 4اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرورِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب النّہی عن الجدال فی القرآن، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۳)
(2)…حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قرآنِ مجید میں جھگڑا نہ کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔( معجم الکبیر، عبد اللّٰہ بن عبد الرّحمٰن عن زید بن ثابت، ۵ / ۱۵۲، الحدیث: ۴۹۱۶)
(3)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ایک دن میں حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے دو شخصوں کی آواز یں سنیں جو کسی آیت میں اختلاف کررہے تھے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے کہ چہرۂ انور میں غصہ معلوم ہوتا تھا،ارشاد فرمایا’’ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہی ہلاک ہوگئے۔ (مسلم، کتاب العلم، باب النّہی عن اتباع متشابہ القرآن... الخ، ص۱۴۳۳، الحدیث: ۲(۲۶۶۶))
(4)…حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک جماعت کو قرآنِ مجید میں جھگڑا کرتے سنا تو ارشاد فرمایا ’’ اس حرکت کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے کتاب کے ایک حصے کو دوسرے حصے کے مخالف دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تو اس لیے اتری ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تصدیق کرے، لہٰذا تم ایک حصے کو دوسرے حصے سے جھٹلاؤ نہیں بلکہ کتاب میں سے جس قدر جانتے ہو اتنا کہو اور جو نہیں جانتے اسے عالِم کے سپرد کرو۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۶۱۱، الحدیث: ۶۷۵۳)
یادرہے کہ قرآنِ مجید کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے بعض صورتیں ، کفر، بعض کفر کے قریب اور حرام ہیں ،مثلاً قرآنِ پاک کو جادو، شعر ، کہانَت اور سابقہ لوگوں کی داستان کہنا، جیسا کہ کفارِ مکہ کہا کرتے تھے،یہ کفر ہے۔ یونہی قرآنِ عظیم کو اپنی رائے کے مطابق بنانے میں جھگڑنا کہ ہر ایک اپنی رائے اور ایجاد کردہ مذہب کے مطابق اس کا ترجمہ یا تفسیر کرے۔ یہ کفر بھی ہوسکتا ہے اور ضلالت و گمراہی بھی ۔اسی طرح بغیر علم کے قرآن کا مطلب بیان کرنا حرام اور اپنے بیان کردہ مطلب کے درست ہونے پر اِصرار مزید حرام ہے۔
نوٹ:آیت اور اَحادیث میں جو قرآنِ کریم میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے اس سے مذکورہ بالا صورتیں مراد ہیں جبکہ مشکل مقامات کو حل کرنے اور پیچیدہ مسائل کو واضح کرنے کے لئے علمی اور اصولی بحثیں کرنا جیسا کہ ممتاز مفسرین اور مُجتہدین نے کیا، ان کا اس جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بہت بڑی عبادات میں سے ہیں نیز مفسرین اور مجتہدین کا جو اختلاف ہے وہ جھگڑا نہیں بلکہ تحقیق ہے۔
{فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ: تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔} یعنی اے سننے والے! کافروں کا صحت اور سلامتی کے ساتھ اپنے شہروں میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک تجارتیں کرتے پھرنا اور نفع پانا تمہارے لئے تَرَدُّد کا باعث نہ ہو کہ یہ کفر جیسا عظیم جرم کرنے کے بعد بھی عذاب سے امن میں کیوں ہیں ، کیونکہ ان کا آخری انجام خواری اور عذاب ہے ۔( خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۶۵-۶۶، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۰۵۱، ملتقطاً)