Home ≫ ur ≫ Surah Ghafir ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(60)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہ بات ضروری طور پر معلوم ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی نفع پہنچے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہونا انتہائی اہم کام ہے اور چونکہ عبادات کی اَقسام میں دعا ایک بہترین قِسم ہے ا س لئے یہاں بندوں کو دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا۔( تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷)
اس آیت میں لفظ ’’اُدْعُوْنِیْۤ ‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا کرنا ہے۔اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ اے لوگو! تم مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد’’ عبادت کرنا ‘‘ ہے ،اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرومیں تمہیں ثواب دوں گا۔(تفسیرکبیر، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ۹ / ۵۲۷، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۳۹۵، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۱۰۶۳، ملتقطاً)
دعا مانگنے کی ترغیب اور ا س کے فضائل:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنی چاہئے ،کثیر اَحادیث میں بھی دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے،یہاں ان میں سے دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’دعا ان مصیبتوں میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو گئیں اور جو ابھی نازل نہیں ہوئیں ان میں بھی فائدہ دیتی ہے ،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔( مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۳، الحدیث: ۱۸۵۸)
(2)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، ۲-باب منہ، ۵ / ۲۴۴، الحدیث: ۳۳۸۴)
نیز دعا کی مزید ترغیب پانے کے لئے یہاں دعا مانگنے کے15فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیزدعا سے بزرگ تر نہیں ۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۱)
(2)…دعا مسلمانوں کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نورہے۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء سلاح المؤمن وعماد الدین، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۵)
(3)…دعا مصیبت وبلا کو اترنے نہیں دیتی۔(مستدرک، کتاب الدعاء والتہلیل۔۔۔ الخ، الدعاء ینفع ممّا نزل وممّا لم ینزل، ۲ / ۱۶۲، الحدیث: ۱۸۵۶)
(4)…دن رات اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے ۔(مسند ابی یعلی، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ، ۲ / ۲۰۱، الحدیث: ۱۸۰۶)
(5)…دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار۔۔۔ الخ، ۵ / ۳۱۸، الحدیث: ۳۵۵۱)
(6)…اللہ تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، باب فضل الذکر والدعاء۔۔۔ الخ، ص۱۴۴۲، الحدیث: ۱۹(۲۶۷۵))
(7)…جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری ،دعا ان سے نفع دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(8)…دعا عبادت کا مغز ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعاء، ۵ / ۲۴۳، الحدیث: ۳۳۸۲)
(9)…دعا رحمت کی چابی ہے۔( مسند الفردوس، باب الدال، ذکر الفصول من ذوات الالف واللام، ۲ / ۲۲۴، الحدیث: ۳۰۸۶)
(10)…دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہم، البرّ یزید فی الرزق، ۴ / ۶۰۸، الحدیث: ۶۰۹۲)
(11)…دعا اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: سلم، سلم بن یحی بن عبد الحمید۔۔۔ الخ، ۲۲ / ۱۵۸)
(12)… دعا بلا کو ٹال دیتی ہے۔( کنزالعمال، کتاب الاذکار، قسم الاقوال، الباب الثامن، الفصل الاوّل، ۱ / ۲۸، الجزء الثانی، الحدیث: ۳۱۱۸)
(13)…جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۲۱، الحدیث: ۳۵۵۹)
(14)…جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ فرماتا ہے۔( مسند الفردوس، باب الالف، ۱ / ۲۸۶، الحدیث: ۱۱۲۲)
(15) … دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قدر و منزلت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۲۸۸، الحدیث: ۸۷۵۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اس مقام پر مفسرین نے دعا قبول ہونے کی چندشرائط ذکر فرمائی ہیں ،ان کا خلاصہ درج ذیل ہے،
(1)…دعا مانگنے میں اخلاص ہو۔
(2)… دعا مانگتے وقت دل دعاکے علاوہ کسی اور چیزکی طرف مشغول نہ ہو۔
(3) … جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو۔
(4)… دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔
(5)…اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تووہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی۔(خزائن العرفان، المؤمن، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۳، ملخصاً)
جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے اور یاد رہے کہ جو دعا تمام شرائط و آداب کی جامع ہو تو اس کے قبول ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ اس کی قبولیت کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلاً اُ س دعاکے مطابق گناہ معاف کر دئیے جائیں یا آخرت میں اس کے لئے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے ا س کی دعا قبول ہوتی ہے، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دیدی جاتی ہے ،یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ کردیا جاتا ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ وہ دعا گناہ یا رشتہ داری توڑنے کے بارے میں نہ ہو اور (اس کی قبولیت میں) جلدی نہ مچائے ۔صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی:وہ جلدی کیسے مچائے گا ؟ارشاد فرمایا: ’’اس کا یہ کہنا کہ میں نے دعا مانگی لیکن قبول ہی نہ ہوئی (یہ کہنا ہی جلدی مچانا ہے)۔( ترمذی، احادیث شتّی، ۱۳۵-باب، ۵ / ۳۴۷، الحدیث: ۳۶۱۸)
اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اور وہ اپنی رحمت سے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ہماری مانگی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ،اس کے کچھ اَسباب ہوتے ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو تو (تجھے چاہئے کہ) اسے اپنا قصور سمجھے ،خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے (کیوں ) کہ اس کی عطا میں نقصان (یعنی کوئی کمی) نہیں ، تیری دعا میں نقصان (یعنی کمی) ہے۔ اے عزیز!دعا چند سبب سے رد ہوتی ہے:
پہلا سبب:کسی شرط یا ادب کا فوت ہونا اور یہ تیرا قصور ہے ،اپنی خطا پر نادم نہ ہونا اور خدا کی شکایت کرنا نِری بے حیائی ہے ۔
دوسرا سبب: گناہوں سے تَلَوُّث (یعنی گناہوں میں مبتلا رہنا)۔
تیسرا سبب:اِسْتِغنائے مولیٰ۔وہ حاکم ہے محکوم نہیں ،غالب ہے مغلوب نہیں ،مالک ہے تابع نہیں ،اگر (اس نے) تیری دعا قبول نہ فرمائی (تو) تجھے ناخوشی اور غصے، شکایت اور شکوے کی مجال کب ہے ،جب خاصوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں ،جب چاہتے منع فرماتے ہیں تو تُو کس شمار میں ہے کہ اپنی مراد (ملنے ہی) پر اِصرار کرتا ہے ۔
چوتھا سبب:حکمت ِ الٰہی ہے کہ کبھی تو براہِ نادانی کوئی چیز اس سے طلب کرتا ہے اور وہ براہِ مہربانی تیری دعا کو اس سبب سے کہ تیرے حق میں مُضِر (یعنی نقصان دِہ) ہے، رد فرماتا ہے (اور اسے قبول نہیں فرماتا)، مثلاً:تو جویائے سِیم و زَر (یعنی مال و دولت کا طلبگار) ہے اور اس میں تیرے ایمان کا خطر (یعنی ایمان ضائع ہوجانے کا ڈر) ہے یا تو خواہانِ تندرستی وعافیت (یعنی ان چیزوں کا سوال کرتا) ہے اور وہ علمِ خدا میں مُوجبِ نقصانِ عاقبت (یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تیرے اُخروی نقصان کا باعث) ہے، ایسا رد ،قبول سے بہتر (یعنی ایسی دعا کو قبول کئے جانے کی بجائے رد کر دیناہی بہتر ہے)۔
پانچواں سبب:کبھی دعا کے بدلے ثوابِ آخرت دینا منظور ہوتا ہے، تو حُطامِ دنیا (یعنی دنیا کاساز وسامان) طلب کرتا ہے اور پروردگار نفائسِ آخرت (یعنی آخرت کی عمدہ اور نفیس چیزیں ) تیرے لیے ذخیرہ فرماتا ہے، یہ جائے شکر (یعنی شکر کا مقام) ہے نہ (کہ) مقامِ شکایت۔( فضائل دعا، فصل ششم، ص۱۵۳-۱۵۹، ملتقطاً)
نوٹ: دعا کے فضائل و آداب اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے والدماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی شاندار تصنیف ’’اََحْسَنُ الْوِعَاء لِآدَابِ الدُّعَاء‘‘(یہ کتاب تسہیل وتخریج کے ساتھ مکتبۃ المدینہ سے بھی بنام ’’فضائل دعا‘‘ شائع ہوچکی ہے) اورراقم کی کتاب ’’فیضانِ دعا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں ۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ: بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ۔} یاد رہے کہ جن آیات و اَحادیث میں دعاترک کرنے پر جہنم میں داخلے یا غضبِ الٰہی وغیرہ کی وعیدیں آئی ہیں ، ان میں وہ لوگ مراد ہیں جو مُطْلَقاً دعا کو ترک کر دیتے ہیں (یعنی کچھ بھی ہوجائے، ہم نے دعا نہیں کرنی) یا مَعَاذَاللہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بے نیاز سمجھ کر دعا ترک کردیتے ہیں ، اور اسی وجہ سے اس کے حضور گریہ و زاری کرنے سے کتراتے اور پرہیز کرتے ہیں اور یہ صورت صریح کفر اور اللہ تعالیٰ کے دائمی غضب کا باعث ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اَحادیثِ سابقہ (جو کہ دوسری فصل، ادب نمبر30 کے تحت ذکر ہوئیں ) جن میں ارشاد ہوا کہ ’’جو دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرمائے‘‘، ترکِ مُطْلَق ہی پر محمول یا مَعَاذَاللہ، اپنے کو بارگاہِ عزت عَزَّوَجَلَّ سے بے نیاز جاننا، اس کے حضور تَضَرُّع و زاری سے پر ہیز رکھنا کہ اب صریح کفر ومُوجبِ غضبِ اَبدی ہے، ولہٰذا ’’اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ‘‘ (مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) کے مُتَّصل ہی ارشاد ہوا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ‘‘(بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔)( فضائل دعا، فصل دہم، ص۲۳۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعا مانگنے میں تکبر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے،اٰمین۔