Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 112 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْاؕ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(112)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاسْتَقِمْ:تو تم ثابت قدم رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دین پر عمل کرنے اور اس کے دین کی دعوت دینے پر ایسے ثابت قدم رہیں جیسے آپ کے رب عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو حکم دیا ہے اور آپ کی امت میں سے جو آپ پر ایمان لایا ہے اسے بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے اَحکام کی بجا آوری پر ثابت قدم رہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۳۷۳)
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی ’’ مجھے دین میں ایک ایسی بات بتادیجئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی حاجت نہ رہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ اٰمَنْتُ بِاللہِ(میں اللہ پر ایمان لایا)‘‘ کہہ اور ا س پر قائم رہ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰، الحدیث: ۶۲(۳۸))
{وَ لَا تَطْغَوْا:اور اے لوگو!تم سرکشی نہ کرو۔} یعنی اے لوگو! جس کام سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے وہ نہ کرو، تمہارے اچھے برے سارے اعمال اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور اس سے تمہارا کوئی عمل بھی پوشیدہ نہیں تو اے لوگو! تم اس بات سے ڈرو کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے اعمال جانتا ہے جبکہ حال یہ ہے کہ تم اس کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۷ / ۱۲۳)
دینِ اسلام پر ثابت قدمی کی ترغیب:
ایمان اور احکامِ اسلام پر ثابت قدمی نہایت ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘(حم السجدۃ:۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جنہوں نے کہا :ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت پر خوش ہوجاؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’ ’اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ(۱۳) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ‘‘(احقاف۱۳،۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو نہ ان پر خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔وہ جنت والے ہیں ، ہمیشہ اس میں رہیں گے ، انہیں ان کے اعمال کابدلہ دیا جائے گا۔
ترغیب کے لئے ہم یہاں چند وہ اَسباب ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے بندہ دینِ اسلام پرثابت قدم رہتا ہے اور چند وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو دینِ اسلام پر ثابت قدمی سے مانع ہیں ، چنانچہ دینِ اسلام پر ثابت قدمی کے چند اسباب یہ ہیں : (1) علمِ دین حاصل کرنا۔ (2) کثرت سے مسجد میں حاضر ہونا۔ (3) زبان کی حفاظت کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں سے بچنا۔ (5) کافروں ، بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں سے تعلقات نہ رکھنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنا۔ (7) مصائب و آلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ (9) لمبی امیدیں نہ رکھنا۔ (10) اور دنیا میں زہد و قناعت اختیار کرنا وغیرہ ،
اس کے برعکس ایمان و عمل پر ثابت قدمی سے رکاوٹ بننے والی چند چیزیں یہ ہیں۔ (1) علمِ دین سے بہرہ ور نہ ہونا۔ (2) مسجد میں حاضر ہونے سے کترانا۔ (3) زبان کی حفاظت نہ کرنا۔ (4) کفر اور گناہوں کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کرنا۔ (5) کافروں بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔ (6) نفسانی خواہشات کی لذت حاصل کرنے کی حرص ہونا۔ (7) مصائب وآلام اور آزمائشوں پر صبر نہ کرنا۔ (8) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔ (9) لمبی امیدیں رکھنا۔ (10) اور دنیا میں رغبت رکھنا وغیرہ۔
حضرت عبداللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اسلام پر اِستقامت:
حضر ت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کرتے ہیں کہ’’ روم کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ صحابی ٔرسول حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی قید کرلیا گیا۔ رومی سردار نے تمام مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا: نصرانی ہوجائو، ورنہ میں تمہیں تانبے کی دیگ میں ڈال کر جلادوں گا۔ یہ سن کرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا ’’ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، میں کبھی بھی نصرانی نہیں بنوں گا۔ ظالم سردار نے جب یہ سنا تو تانبے کی دیگ منگواکر اس میں تیل ڈلوایا، پھر اس کے نیچے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب گرم ہوکرابلنے لگا تو ایک مسلمان قیدی کو بلاکر کہا: نصرانی ہوجائو، اس مردِ مجاہدنے انکار کیا تو اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا گوشت جل گیا اور ہڈیاں اوپر تیرنے لگیں۔ پھر حضر ت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا گیا: عیسائی ہوجائو، ورنہ اس شخص کی طرح تمہیں بھی اس ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صاف انکار کردیا۔ ظالم سردار نے حکم دیا کہ اسے بھی تیل کی دیگ میں ڈال دو۔ حکم پاتے ہی جلاد وں نے آپ کو پکڑا اور ابلتے ہوئے تیل میں ڈالنے کے لئے لے چلے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اچانک رونا شروع کردیا۔ جلاد ،ظالم سردار کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ قیدی رو رہا ہے ۔سردار بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اسے ہمارے پاس لے آئو۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ موت کے ڈر سے اس کی بات ماننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کے سامنے آئے تو فرمایا ’’کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں موت کےخوف سے رو رہا ہوں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں موت کے خوف سے نہیں بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے جسم میں صرف ایک جان ہے جو میں دینِ اسلام کے لئے قربان کر رہا ہوں ، مجھے تو یہ پسند تھا کہ میرے جسم میں اگر سوجانیں ہوتیں توایک ایک کر کے سب کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر قربان کر دیتا۔ سردار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ ایمان افروز تقریر سن کر بہت متعجب ہوا کہ ان کے اندر اپنے دین کی کتنی محبت ہے اور یہ خوشی سے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔ سردار نے لالچ دیتے ہوئے کہا :اگر تم نصرانی ہوجائو تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کردوں گا اور حکومت میں بھی تمہیں حصہ دوں گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی اور صاف انکار کردیا۔ پھر اس نے کہا: اچھا اس طرح کرو کہ تم میرے سرپر بوسہ دو اگر تم یہ کروگے تو میں تمہیں بھی آزاد کر دوں گا اور تمہارے ساتھ تمہارے 80 مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ اگر واقعی تم ایسا کرو گے تو میں تمہارے سر کو بوسہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ سردار نے یقین دہانی کرائی کہ میں اپنی بات ضرور پوری کروں گا ۔ چنانچہ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اس ظالم کے سر کا بوسہ لیا۔ سردار نے حسبِ وعدہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور 80 مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔ جب یہ تمام مجاہدین امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں پہنچے تو امیر المؤمنین آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر کا بوسہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والاربعون بعد المائتین، ص۲۳۶-۲۳۷)