Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 113 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(113)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا:اور ظالموں کی طرف نہ جھکو۔} رُکون یعنی جھکنے کا معنی ہے قلبی میلان اور جب اس پر اتنی سخت وعید ہے تو کافروں کے ساتھ تعلقات کی اُن صورتوں میں کیا حال ہو گا جو قلبی میلان سے بڑھ کر ہیں۔یاد رہے کہ طبعی میلان کی غیر اختیاری صورت اس آیت میں بیان کئے گئے حکم میں داخل نہیں ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ ’’مگر طبعی میلان جیسے ماں باپ، اولاد یا خوبصورت بیوی کی طرف ہوتا ہے، اس کی جو صورت غیر اختیاری ہو وہ اس حکم کے تحت داخل نہیں ، پھر بھی اس تصور سے کہ یہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں ان سے دوستی حرام ہے اور اپنی قدرت کے مطابق اُسے دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کردینا لازم ہے ۔ (میلان کا) آنا بے اختیار تھا اور (اس کا) جانا یعنی اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو (اس میلان کو) رکھنا اختیار موالات ہوا اور یہ حرام قطعی ہے ، اسی وجہ سے جس غیر اختیاری (میلان) کے مبادی (یعنی ابتدائی افعال) اس نے باختیار پیدا کئے تو اس میں معذورنہ ہوگا، جیسے شراب کہ اس سے عقل زائل ہوجانا اس کا اختیاری نہیں مگر جبکہ اختیار سے پی تو عقل کا زائل ہو جانا اور اس پر جو کچھ مرتب ہو سب اسی کے اختیار سے ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۶)
خدا کے نافرمانوں سے تعلقات کی ممانعت:
اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافروں ، بے دینوں ، گمراہوں اور ظالموں کے ساتھ بلاضرورت میل جول ،رسم و راہ، قلبی میلان اور محبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا اور ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ ظالموں کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(ظالموں کے ساتھ عملی طور پر تعاون تو ظاہر ہے اور) زبانی طور پر تعاون یہ ہے کہ وہ ظالم کے لئے دعا مانگتا ہے یااس کی تعریف کرتا ہے یااس کے جھوٹے قول کی صراحتاً تصدیق کرتا ہے، مثلاً زبان سے اسے سچا قرار دیتا ہے یاسر ہلا دیتا ہے یااس کے چہرے پر مُسَرَّت ظاہر ہوتی ہے یاوہ اس شخص سے محبت و دوستی ظاہر کرتا ہے ، اس سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ اور ا س کی بقا کی حرص رکھتا ہے، ایسا شخص عام طور پر (ظالموں کو) صرف سلام ہی نہیں کرتا بلکہ (ان سے) کچھ بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ اسی شخص کا کلام ہوتا ہے حالانکہ اس کا ظالم کی حفاظت، اس کی لمبی زندگی، ا س کے لئے نعمتوں کی تکمیل اور اس طرح کی دوسری دعائیں مانگنا جائز نہیں ،اور اگر دعا کے ساتھ تعریفی کلمات بھی ہوں اور وہ ان باتوں کا ذکر کرے جو اس ظالم میں نہیں ہیں تو یہ شخص جھوٹا، منافق اور ظالم کااعزاز کرنے والا ہے اور یہ تین گناہ ہیں ،اور اگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س کی باتوں کی تصدیق بھی کرے،اس کے کاموں کی تعریف کرے،اس کی پاکیزگی بیان کرے تو وہ اس تصدیق اور اِعانت کی وجہ سے گناہگار ہو گا کیونکہ ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الحلال والحرام، الباب السادس فیما یحلّ من مخالطۃ السلطان الظلمۃ ویحرم۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)
اَحادیث اور بزرگانِ دین کے اَقوال میں بھی ان چیزوں کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ اس وقت ناراض ہوتا ہے جب زمین پر کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے ۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۰، الحدیث: ۴۸۸۵)
حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جو شخص کسی ظالم کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہے وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جائے۔ (شعب الایمان، السادس والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۵۳، روایت نمبر: ۹۴۳۲)
امام اوزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عالم سے زیادہ ناپسندیدہ شخص کوئی نہیں جو کسی عامل (یعنی ظالم گورنر) کے پاس جاتا ہے۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵۔)
یہاں ایک اور بات یاد رکھیں کہ بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ ہم اپنی دنیوی ضروریات کی وجہ سے ظالموں کے اعمال پر راضی ہوتے، ان کی خوشامد و چاپلوسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ، اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمارے لئے اپنی دنیوی ضروریات کو پورا کرنا دشوار ہو جائے، انہیں چاہئے کہ وہ علامہ احمدصاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ا س کلام پر غور کر لیں ، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ظالموں کے اَعمال سے راضی ہونے میں دنیوی ضروریات کو دلیل بنانا قابلِ قبول نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا رزق دینے والا، قوت والا اور قدرت والا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۳ / ۹۳۶) اور جب حقیقی رازق، قوی اور قادر اللہ تعالیٰ ہے تو خود کو ظالموں کا دست نگر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
نوٹ: غیر مسلموں سے تعلقات رکھنے کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی جلد نمبر 14 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے’’اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘(سورہِ ممتحنہ کی آیت کے بارے میں تفصیلی کلام)کا مطالعہ کریں۔
{وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ:اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا اور کوئی مددگار نہیں کہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بچاسکے اور نہ ہی کل قیامت کے دن تمہیں کوئی ایسا ملے گا کہ جو تمہاری مدد کر سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے تمہیں بچا لے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ حال تو ان کا ہے جو ظالموں سے تعلقات اور میل جول رکھیں ، ان کے اعمال سے راضی ہوں اور ان سے محبت رکھیں اور جو خود ظالم ہو تو اس کا حال ان سے کتنا بدتر ہوگا وہ خود ہی غور کر لے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۳۷۴)
اور امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں ’’ایک دن حضرت موفق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے امام کے پیچھے نماز پڑھی اور جب امام نے یہ آیت’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا…الخ‘‘ تلاوت کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر غشی طاری ہو گئی ، جب اِفاقہ ہوا تو ان سے (غشی کی وجہ کے بارے میں ) عرض کی گئی توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’یہ ( سزا کا بیان) اُس شخص کے بارے میں ہے جو ظالم کی طرف جھکے اور جو خود ظالم ہو تو ا س کا کیا حال ہو گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۵۱۵)
ہم ظلم اور ظالموں کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور ہر ظالم کو چاہئے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آ جائے اور جیتے جی ان لوگوں سے معافی مانگ لے جن پر ظلم کیا ورنہ قیامت کے دن جب ظلم کابدلہ دینا پڑا تو انجام بہت دردناک ہوگا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر زیادتی کی ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے آج ہی معافی حاصل کر لے جس دن دینار اور درہم پاس نہیں ہوں گے، اگر ظالم کے پاس نیک اعمال ہوئے تو ظلم کے برابر ان میں سے لے لئے جائیں گے اور اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو ظلم کے برابر مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈال دئیے جائیں گے۔(بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل فحلّلہا لہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹)