banner image

Home ur Surah Hud ayat 119 Translation Tafsir

وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ(118)اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَؕ-وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَــٴَـنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(119)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت کردیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔ مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا اور لوگ اسی لیے بنائے ہیں اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت بنادیتا اور لوگ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے۔ البتہ جن پر تمہارے رب نے رحم کیا اور اللہ نے انہیں اسی کے لئے پیدا فرمایا ہے اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سے ملا کربھر دوں گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ:اور اگرتمہارا رب چاہتا ۔} ارشاد فرمایا ’’اگر تمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور یوں سب کا ایک ہی دین ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ایسا نہ چاہا اور سب کو ایک امت نہ بنایا اور لوگ ہمیشہ مختلف دینوں پر عمل پیرا رہیں گے۔ علامہ صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہو اکہ اختلاف جس طرح پہلی امتوں میں موجود تھا اُسی طرح اس امت میں بھی رہے گا تو ان میں سے کوئی مومن ہو گا کوئی کافر، کوئی نیک ہو گا اور کوئی گناہگار، اسی لئے حدیث میں ہے کہ یہودی 71 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور عنقریب تم 73 فرقوں میں بٹ جاؤ گے، ان میں سے72 فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ ایک جنتی فرقہ اہلِ سنت وجماعت ہے۔ (صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۳ / ۹۳۸)

{ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ:البتہ جن پر تمہارے رب نے رحم کیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ البتہ وہ لوگ جن پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے رحم کیا اور انہیں اختلاف سے بچا لیا تو وہ دینِ حق پر متفق رہیں گے اور اس میں اختلاف نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے لوگ اسی لیے یعنی اختلاف والے اختلاف کے لئے اور رحمت والے اتفاق کے لئے پیدا کئے ہیں اور تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی بات پوری ہوچکی کہ وہ جہنم کوتمام کافر جنوں اور انسانوں سے بھر دے گا۔ (مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۵۱۷)