Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 120 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهٖ فُؤَادَكَۚ-وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَةٌ وَّ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(120)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كُلًّا:اور سب کچھ۔} اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کے واقعات اور ان کی طرف سے ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جو کچھ پیش آیا وہ بیان فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم تمہیں رسولوں کی خبریں اور جو کچھ انہیں اپنی امتوں سے پیش آیا سناتے ہیں تاکہ ا س کے ذریعے ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل مضبوط کریں اور ا س طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات اور ان کی امتوں کے سلوک دیکھ کر آپ کو اپنی قوم کی ایذا برداشت کرنا اور اس پر صبر فرمانا آسان ہو۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۳۷۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ والوں کے ذکر سے دل کو چین نصیب ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انسان اپنی زندگی میں رونما ہونے والے طرح طرح کے واقعات اور حادثات کی وجہ سے بسا اوقات انتہائی مایوس ہو جاتا ہے حتّٰی کہ اگر کبھی کوئی خوشی بھی نصیب ہو تو اس سے دل میں خوشی پیدا ہونے یا اس خوشی کو محسوس کرنے کی بجائے اس کی اداسی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، ایسی صورتِ حال میں انسان کو ایسی چیز کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہیں جس سے اس کے دل کو قوت حاصل ہو اور حالاتِ زمانہ کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اور دل کی تقویت کا ایک اہم ترین ذریعہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین کے حالات و واقعات کامطالعہ کرنا بھی ہے کیونکہ جب آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مقبولیت اور مقام و مرتبہ دیکھے گا اور دنیا میں انہیں جو حالات پیش آئے اور جن مَصائب و مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا ان پر نظر کرے گا اور ا س کے مقابلے میں ان کے صبر و تحمل اور رضاءِ الہٰی پر راضی رہنے کے بارے میں غوروفکر کرے گا تو اس کے دل کو تسکین حاصل ہو گی اور اسے مَصائب و آلام کا سامنا کرنے میں دلی قوت حاصل ہو گی اور وہ ذہنی طور پر خود کو بہت پُرسکون محسوس کرے گا۔
{وَ جَآءَكَ فِیْ هٰذِهِ الْحَقُّ:اور اس سورت میں تمہارے پاس حق آیا۔} اس آیت میں حق سے مراد توحید و رسالت اور قیامت کے وہ دلائل ہیں جنہیں اس سورت میں بیان کیا گیا۔ اور ’’مَوْعِظَةٌ‘‘ کا معنی ہے جس کے ذریعے نصیحت حاصل کی جائے ، یہاں اس سے مراد سابقہ امتوں کی ہلاکت کا بیان ہے جس کا ذکر اس سورت میں ہوا۔ اور ’’ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مسلمان سابقہ امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کا سن کر اس سے عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ مسلمانوں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات سن کر مسلمان ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۶ / ۴۱۳، قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۵ / ۸۱، الجزء التاسع، ملتقطاً)