Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 31 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًاؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْۚۖ-اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(31)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ:اور میں تم سے نہیں کہتا ۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے آپ کی نبوت میں تین شُبہات وارد کئے تھے۔
ایک شُبہ تو یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰى لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍۭ‘‘ ہم تم میں اپنے اوپر کوئی بڑائی نہیں پاتے یعنی تم مال و دولت میں ہم سے زیادہ نہیں ہو، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ‘‘ یعنی میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بالکل بے محل ہے کیونکہ میں نے کبھی مال کی فضیلت جتائی ہے اور نہ دنیوی دولت کی توقع رکھنے کا تمہیں کہا ہے اور اپنی دعوت کو مال کے ساتھ وابستہ بھی نہیں کیا پھر تم یہ کہنے کے کیسے مستحق ہو کہ ہم تم میں کوئی مالی فضیلت نہیں پاتے ،تمہارا یہ اعتراض محض بے ہودہ ہے۔
دوسرا شبہ یہ تھا ’’ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ‘‘ یعنی ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری کسی نے پیروی کی ہو، مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے ۔مطلب یہ تھا کہ وہ بھی صرف ظاہر میں مومن ہیں باطن میں نہیں ، اس کے جواب میں حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ میں غیب جانتا ہوں اور میرے اَحکام غیب پر مبنی ہیں تاکہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا، جب میں نے یہ کہا ہی نہیں تو اعتراض بے محل ہے اور شریعت میں ظاہر ہی کا اعتبار ہے لہٰذا تمہارا اعتراض بالکل بے جا ہے ،نیز ’’لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ‘‘ فرمانے میں قوم پر ایک لطیف اعتراض بھی ہے کہ کسی کے باطن پر حکم کرنا اس کا کام ہے جو غیب کا علم رکھتا ہو جبکہ میں نے اس کا دعویٰ نہیں کیا حالانکہ میں نبی ہوں تو تم کس طرح کہتے ہو کہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔
تیسرا شبہ اس قوم کا یہ تھا کہ ’’مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا‘‘ یعنی ہم تمہیں اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں۔اس کے جواب میں فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں یعنی میں نے اپنی دعوت کو اپنے فرشتہ ہونے پر موقوف نہیں کیا تھا کہ تمہیں یہ اعتراض کرنے کا موقع ملتا کہ دعویٰ تو فرشتہ ہونے کا کیا تھا لیکن نکلے بشر، لہٰذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، ملخصاً)
{ وَ لَاۤ اَقُوْلُ: اور میں یہ نہیں کہتا۔} کفار نے چونکہ غریب مسلمانوں کو حقیر سمجھا تھا اس پر حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا ’’ میں ان غریب مسلمانوں کے بارے میں جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہیں یہ حکم نہیں لگاتا کہ اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں دنیا و آخرت میں کوئی بھلائی نہ دے گا۔ نیکی یا بدی اِخلاص یا نفاق جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ اگر میں اُن کے ظاہری ایمان کو جھٹلا کر اُن کے باطن پر الزام لگائوں اور انہیں نکال دوں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں گا اوربِحَمْدِاللہ میں ظالموں میں سے ہر گز نہیں ہوں تو ایسا کبھی نہ کروں گا۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۳۴۹، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۱، ص۴۹۵، ملتقطاً) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو کسی دلیل کے بغیر منافق یا کافر کہنے والا ظالم ہے کہ شریعت کا حکم ظاہر پر ہے۔