Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 35 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُؕ-قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ(35)
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ:کیا یہ کہتے ہیں۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو بات حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ انہوں نے اپنے پاس سے ہی بنا لی ہے۔تواے نوح! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،تم ان سے فرما دو کہ بالفرض اگر میں نے اپنے پا س سے بنا لی ہے تو مجھے ، میرے گناہ کی سزا ملے گی (لیکن حقیقت یہ ہے کہ) تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔(تفسیر ابو سعود، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۲۸-۲۹) اس تفسیر کے مطابق اس آیت کا تعلق حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعے کے ساتھ ہی ہے ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کیا کفارِ مکہ یہ کہتے ہیں کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ قرآن خود ہی بنا لیا اور یہ کہہ کر کفاراسےاللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام ماننے اور اس کے اَحکام ماننے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے ہیں اور اُن کی طرف اِفتراء کی نسبت کرتے ہیں جن کی سچائی روشن دلائل اور مضبوط حجتوں سے ثابت ہو چکی ہے،لہٰذا اب اُن سے فرما دو کہ اگر بالفرض میں نے بنا بھی لیا ہو تو میرا جرم صرف مجھ پر ہے، جس کا وبال ضرور آئے گالیکن بِحَمْدِاللہِ میں سچا ہوں تو تم سمجھ لو کہ تمہاری تکذیب کا وبال تم پر پڑے گا اور تم نے میرے اوپر جو تہمت لگائی ہے میں تمہارے اس جرم سے بیزار ہوں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۳۵۰، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۴۹۶، ملتقطاً)
تفسیرِ جمل میں ہے کہ اس صورت میں یہ آیت حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قصے کے دوران ا س لئے ذکر کی گئی ہے تاکہ سننے والوں کا نَشاط برقرار رہے۔ (جمل، ہود، تحت الآیۃ: ۳۵، ۳ / ۴۲۹)