banner image

Home ur Surah Hud ayat 6 Translation Tafsir

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(6)

ترجمہ: کنزالایمان اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔ سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ:اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں۔}’’دَآبَّةٍ‘‘ کا معنی ہے ہر وہ جانور جو زمین پر رینگ کر چلتا ہو، عُرف میں چوپائے کو ’’دَآبَّةٍ ‘‘ کہتے ہیں جبکہ آیت میں اس سے مُطْلَقًاجاندار مراد ہے لہٰذا انسان اور تمام حیوانات اس میں داخل ہیں۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰)

کسی جاندار کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں :

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ جانداروں کو رزق دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب ہو بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم فرما لیا ہے اور ( یہ اس کی رحمت اور اس کا فضل ہے کہ) وہ اس کے خلاف نہیں فرماتا۔ رزق کی ذمہ داری لینے کو ’’عَلَى‘‘ کے ساتھ اس لئے بیان فرمایا تاکہ بندے کا اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر توکل مضبوط ہو اور اگر وہ (رزق حاصل کرنے کے) اَسباب اختیار کرے تو ان پر بھروسہ نہ کر بیٹھے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی پر اپنا اعتماد اور بھروسہ رکھے ، اسباب صرف اس لئے اختیار کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فارغ رہنے والے بندے کو پسند نہیں فرماتا۔ زمین کے جانداروں کا بطورِ خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی غذاؤں کے محتاج ہیں جبکہ آسمانی جاندار جیسے فرشتے اور حورِ عِین، یہ اس رزق کے محتاج نہیں بلکہ ان کی غذا تسبیح و تہلیل ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶،  ۳ / ۹۰۰، ۹۰۱)

{وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا:اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔} حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بندہ دن یا رات گزارتا ہے اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد دفن کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مُسْتَقَرْ سے مراد ماؤں کے رحم اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں موت آئے گی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ مُسْتَقَرْ سے مراد جنت یا دوزخ ہے اور مُسْتَوْدَعْ سے مراد قبر ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۲ / ۳۴۰-۳۴۱)

{كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ:سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔} یعنی اس آیت میں جو جانداروں ، ان کے رزق، ان کے ٹھہرنے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کا ذکر ہوا یہ سب بیان کرنے والی کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ لوحِ محفوظ میں سب جانداروں کے رزق ، ان کی جگہوں ،ان کے زمانے اور اَحوال کی تفصیل مذکور ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۹۰۱)

ہر چیزکو لوحِ محفوظ میں لکھنے کی حکمت:

خیال رہے کہ ہر چیز کا لوحِ محفوظ میں لکھا جانا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بھول جانے کا خطرہ تھا لہٰذا لکھ لیا، کیونکہ بھول جانا اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہے، بلکہ اس لئے لکھاہے تاکہ لوحِ محفوظ دیکھنے والے بندے اس پر اطلاع پائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوحِ محفوظ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بھی ہر ایک کے مُسْتَقَرْ اور مُسْتَوْدَع کی خبر ہے کیونکہ یہ سب لوحِ محفوظ میں تحریر ہے اور لوحِ محفوظ ان کے علم میں ہے۔ لوحِ محفوظ کو مُبِینْ اس لئے فرمایا گیا کہ و ہ خاص بندوں پر عُلومِ غَیْبِیَّہ بیان کردیتی ہے۔