Home ≫ ur ≫ Surah Hud ≫ ayat 81 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍ(80)قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ یَّصِلُوْۤا اِلَیْكَ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَكَؕ-اِنَّهٗ مُصِیْبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمْؕ-اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُؕ-اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ(81)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:فرمایا۔} جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یقین ہو گیا کہ قوم اپنے ارادے سے باز نہیں آئے گی تو آپ نے افسوس کرتے ہوئے فرمایا ’’اے کاش! مجھے تم سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا میں ایسا قبیلہ رکھتا جو میری مدد کرتا تو میں تم سے مقابلہ اور جنگ کرتا ۔ (ابوسعود، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۳ / ۵۴، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۶۴، ملتقطاً)
{قَالُوْا:فرشتوں نے عرض کی۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے مکان کا دروازہ بند کرلیا تھا اور اندر سے یہ گفتگو فرما رہے تھے ، قوم نے چاہا کہ دیوار توڑ دیں ، فرشتوں نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رنج اور بے چینی دیکھی تو عرض کی: اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ کا پایہ مضبوط ہے، ہم ان لوگوں کو عذاب کرنے کے لئے آئے ہیں ، آپ ایسا کریں کہ دروازہ کھول دیں ،پھر ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں ، یہ لوگ آپ تک ہر گز نہیں پہنچ سکیں گے اور نہ ہی آپ کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے ۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دروازہ کھول دیا توقوم کے لوگ مکان میں گھس آئے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا بازو ان کے چہروں پر مارا تو وہ سب اندھے ہوگئے اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مکان سے نکل کر بھاگے، انہیں راستہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ یہ کہتے جاتے تھے’’ ہائے! ہائے! لوط کے گھر میں بڑے جادو گر ہیں ، انہوں نے ہم پرجادو کر دیا ہے۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۴-۳۶۵)
{فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ:توآپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جائیں۔} فرشتوں کے اس کلام کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوط! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے لیکن آپ کی بیوی پیٹھ پھیر کر دیکھ لے گی کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوط!عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ اپنے گھر والوں کو راتوں رات یہاں سے لے جائیں اور آپ میں سے کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے البتہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہ جائیں کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنا ہے جو ان کافروں کو پہنچے گا۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۶ / ۳۸۱-۳۸۲)
{اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ: بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرشتوں سے کہا :’’یہ عذاب کب ہوگا؟فرشتوں نے جواب دیا’’ بیشک ان کے عذاب کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے۔ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ میں تو اس سے جلدی چاہتا ہوں۔فرشتوں نے عرض کی ’’صبح قریب ہی ہے آپ اسے دور نہ سمجھیں۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۱، ۲ / ۳۶۵)