banner image

Home ur Surah Hud ayat 83 Translation Tafsir

مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَؕ-وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ(83)

ترجمہ: کنزالایمان جو نشان کیے ہوئے تیرے رب کے پاس ہیں اور وہ پتھر کچھ ظالموں سے دور نہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ پتھر ظالموں سے کچھ دور نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ:جن پر تیرے رب کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے۔} ان پتھروں پر ایسا نشان تھا جس سے وہ دوسروں سے ممتاز تھے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ان پر سرخ خطوط تھے ۔حضرت حسن  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مفسر سدی کا قول ہے کہ ان پر مہریں لگی ہوئی تھیں اور ایک قول یہ ہے کہ جس پتھر سے جس شخص کی ہلاکت منظور تھی اس کا نام اس پتھر پر لکھا تھا۔ (خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۳۶۵)

{وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ:اور وہ پتھر ظالموں سے کچھ دور نہیں۔} امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں کفارِ قریش کو ڈرایا گیا ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ پتھر آپ کی قوم کے ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ حضرت قتادہ اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اس امت کے ظالموں سے وہ پتھر کچھ دور نہیں۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو ان پتھروں سے نہیں بچائے گا۔ (قرطبی، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۵ / ۵۹، الجزء التاسع)  امام رازی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ بستیاں جن میں یہ واقعہ رونما ہوا کفارِ مکہ سے دور نہیں کیونکہ وہ بستیاں ملک شام میں تھیں اور شام مکہ سے قریب ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۳، ۶ / ۳۸۴)

لواطت کی مذمت پر دو معروضات:

            اس رکوع میں چونکہ بدفعلی یعنی لواطت کا بیان ہوا ہے لہٰذا یہاں اس کی مذمت پر کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں۔

(1)…بد فعلی یعنی لواطت کبیرہ گناہوں میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ایسا شخص مستحقِ لعنت ہے اور بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی نظرِ رحمت سے محروم رہے گا ۔ چنانچہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’’ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵)وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ  ‘‘ (الشعراء :۱۶۵-۱۶۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:کیاتم لوگوں میں سے مَردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔اوراپنی بیویوں کو چھوڑتے ہو جو تمہارے لیے تمہارے رب نے بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ہو ۔

            اور حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر قومِ لوط کے سے عمل کا ہے ۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۲)

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (تین مرتبہ اس طرح) ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا ، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے قومِ لوط جیسا عمل کیا۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشہود، من عمل عمل قوم لوط، ۴ / ۳۲۲، الحدیث: ۷۳۳۷)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے تم قومِ لوط جیسا عمل کرتے پاؤ تو لواطت کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔ (ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء فی حدّ اللوطی، ۳ / ۱۳۸، الحدیث: ۱۴۶۱)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظررحمت نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے مقام میں وطی کرے ۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی کراہیۃ اتیان النساء فی ادبارہنّ، ۲ / ۳۸۸، الحدیث: ۱۱۶۸)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بد فعلی کا مرتکب اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اسے قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الحادیۃ عشر: اللواط، ص۶۳)

(2)… شریعتِ مطہرہ میں لواطت یعنی بد فعلی  کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادی جا ئے یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرایا جا ئے اور اُس پر پتھر برسائے جائیں یا اُسے قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الحدود، باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لا یوجبہ، ۶ / ۴۳-۴۴، ملخصاً)

اس مسئلے کوصدرُ الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تفصیل سے اس طرح ذکر فرمایا: ’’اغلام یعنی پیچھے کے مقام میں وطی کی تو اس کی سزا یہ ہے اس کے اوپر دیوار گرادیں یا اونچی جگہ سے اُسے اوندھا کرکے گرائیں اور اُس پر پتھر برسائیں یا اُسے قید میں رکھیں یہاں تک کہ مرجائے یا توبہ کرے یا چند بار ایسا کیا ہوتو بادشاہِ اسلام اُسے قتل کرڈالے۔ الغرض یہ فعل نہایت خبیث ہے بلکہ زنا سے بھی بدتر ہے، اسی وجہ سے اس میں حد نہیں کہ بعضوں کے نزدیک حد قائم کرنے سے اُس گناہ سے پاک ہوجاتا ہے اور یہ اتنا برا ہے کہ جب تک توبہ خالصہ نہ ہو اس میں پاکی نہ ہوگی اور اغلام کو حلال جاننے والا کافر ہے یہی مذہبِ جمہور ہے۔ (بہار شریعت، حصہ نہم، حدود کابیان، کہاں حد واجب ہے اور کہاں نہیں، ۲ / ۳۸۰-۳۸۱)

          تنبیہ:یہ یاد رہے کہ سزاؤں کے نفاذ کا اختیار صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔