banner image

Home ur Surah Ibrahim ayat 20 Translation Tafsir

اِبرٰهِيْم

Ibrahim

HR Background

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(19)وَّ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(20)

ترجمہ: کنزالایمان کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان و زمین حق کے ساتھ بنائے اگر چاہے تو تمہیں لے جائے اور ایک نئی مخلوق لے آئے ۔ اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان اور زمین حق کے ساتھ بنائے۔وہ اگر چاہے تو اے لوگو! تمہیں لے جائے اور ایک نئی مخلوق لے آئے۔ اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ:کیا تو نے نہ دیکھا۔} یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو باطل اور بیکار پیدا نہیں  فرمایا بلکہ ان کی پیدائش میں  بڑی حکمتیں  ہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۷۹)

{اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ:وہ اگر چاہے تو اے لوگو!تمہیں  لے جائے۔} یعنی جو آسمانوں  اور زمینوں  کو حق کے ساتھ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ ایک قوم کو فنا کر دینے کے بعد نئی مخلوق پیدا کر دینے پر بدرجہ اَولیٰ قادر ہے کیونکہ جو کسی سخت اور مشکل چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہو وہ سہل اور آسان چیز پیدا کرنے پر بدرجہ اولیٰ قادر ہوگا اور یہ ظاہری سمجھانے کے اعتبار سے کلام ہے ورنہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کیلئے اِبتدا و اِعادہ سب برابر ہے۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  ’’اس آیت میں  کفارِ مکہ سے خطاب ہے کہ اے کافروں  کے گروہ! میں  تمہیں  ختم کرکے تمہاری جگہ اور مخلوق پیدا کر دوں  گا جو میری فرمانبردار اور اطاعت گزار ہو گی۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۷ / ۸۲)

اللّٰہ تعالیٰ اپنی نافرمانی پر فوراًسزا نہیں  دیتا:

             علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے  ہیں:’’یہ آیتِ مبارکہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور صبر کے کمال پر دلالت کرتی ہے کہ وہ گناہگاروں  کی جلد پکڑ نہیں  فرماتا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے  ارشاد فرمایا ’’ کوئی شخص ایسا نہیں  جو اَذِیّت ناک بات سنے اور اللّٰہ تعالیٰ سے زیادہ صابر ہو ۔ اُس کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے اور ا س کے لئے بیٹا ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ا س کے باوجود وہ انہیں  مہلت دئیے رکھتا ہے اور انہیں  روزی دیتا رہتا ہے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار، باب لا احد اصبر علی اذی من اللّٰہ عزّوجل۔۔۔ الخ، ص۱۵۰۶، الحدیث: ۴۹ (۲۸۰۴)) پھر عذاب کے مؤخر ہونے میں  یہ حکمت بھی ہے کہ گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور ( باطل) دلیل پر اِصرار کرنے والا اسے چھوڑ دے، اس لئے ہر عقلمند کو چاہئے کہ وہ (جلد عذاب نہ ہونے کو غنیمت سمجھتے ہوئے کفر اور گناہوں  سے فوراً توبہ کر لے اور) ہر حال میں  اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے کیونکہ وہ قَہر، کبریائی اور جلالت والا ہے۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۴۱۰)

{وَ مَا ذٰلِكَ:اور یہ نہیں۔} ارشاد فرمایا کہ یہ (یعنی نئی مخلوق لانا) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے کوئی مشکل نہیں  کیونکہ جو سارے جہان کو فنا کرنے اور ایجاد کرنے پر قادر ہے اس کے لئے مخصوص لوگوں  کو فنا کرنا اور پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۸۲)