banner image

Home ur Surah Ibrahim ayat 32 Translation Tafsir

اِبرٰهِيْم

Ibrahim

HR Background

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖۚ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ(32)

ترجمہ: کنزالایمان اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل تمہارے کھانے کو پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کوتمہارے قابو میں دیدیا تا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدئیے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَللّٰهُ:اللّٰہ ہی ہے۔}اس سے پہلی آیات میں  سعادت مندوں  اور بدبختوں  کے احوال بیان ہوئے اور چونکہ سعادت کے حصول کا اہم ترین ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ہے اور بد بختی کا اہم ترین سبب اس معرفت سے محرومی ہے اس لئے سعادت مندوں  اور بدبختوں  کے احوال کے بعد وہ دلائل بیان فرمائے گئے ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کے موجود ہونےاور اس کے علم و قدرت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں ۔اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں  کل دس دلائل بیان ہوئے ہیں  (1)آسمانوں  کو پیدا کرنا۔(2)زمین کو پیدا کرنا۔(3) آسمان سے پانی اتار کراس کے ذریعے لوگوں  کے کھانے کیلئے کچھ پھل نکالنا۔ (4) کشتیوں  کولوگوں  کے قابو میں  دینا تا کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں  چلے۔ (5) دریا لوگوں  کے قابو میں  دینا۔(6،7) سورج اور چاندکو لوگوں  کے لئے کام پر لگادینا جو برابر چل رہے ہیں ۔ (8،9) لوگوں  کے لیے رات اور دن کومُسخر کردینا۔(10) لوگوں  کو بہت کچھ ان کی منہ مانگی چیزیں  دینا۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۷ / ۹۶)

{اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ:اللّٰہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین کو بغیر کسی چیز کے پیدا فرمایا اور آسمان سے بارش کا پانی نازل فرمایا جس کے ذریعے درختوں  اور کھیتیوں  کی نشوونما ہوئی تو ان پر تمہارے کھانے کے لئے پھل اُگے اور کشتیوں  کوتمہارے قابو میں  دیدیا تا کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے دریا میں  چلیں  ،تم ان کشتیوں  پر سوار ہوتے ہو اوران کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر اپنے سازو سامان کی نقل و حمل کرتے ہو اور دریاؤں  کا پانی بھی تمہار ے قابو میں  دیدیا ۔خلاصہ یہ ہے کہ اے شرک کرنے والو! عبادت اور اطاعت کا مستحق وہی ہے جس کے یہ اوصاف ہیں ، تمہارے معبود بت جو نہ اپنے آپ کو اورنہ کسی اور کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں  وہ ہر گز عبادت کے لائق نہیں ۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۲، ۷ / ۴۵۷)