Home ≫ ur ≫ Surah Ibrahim ≫ ayat 36 ≫ Translation ≫ Tafsir
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(36)
تفسیر: صراط الجنان
{رَبِّ:اے میرے رب!}آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک بتوں کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت اور حق کے راستے سے دور ہو گئے حتّٰی کہ لوگ بتوں کو پوجنے لگے اور تیرے ساتھ کفر کرنے لگ گئے تو جو میرے طریقے پر ہو یعنی اطاعت و فرمانبرداری کے طریقے پر ہو تو بیشک وہ میری سنت پر عمل پیرا ہے اور جو میرا نافرمان ہو تو اس کا معاملہ تیرے ہی حوالے ہے ،بے شک تو گناہگاروں کے گناہوں اور ان کی خطاؤں کو اپنے فضل سے بخشنے والا ہے اور اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے ،اور لوگوں میں سے جسے چاہے معاف فرما دے۔ (تفسیر طبری، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۶، ۷ / ۴۶۰-۴۶۱)
فکرِامت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی امتوں کے انجام کے بارے میں بہت فکر مند ہو اکرتے تھے ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فکرِ امت کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآن پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:
’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ‘‘
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے،جو شخص میری پیروی کرے گا وہ میرے راستہ پر ہے۔
اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کا یہ قول ہے
’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘(المائدہ:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے اللّٰہ ! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے۔
پھر حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دست ِدعا بلند کر دئیے اور روتے ہوئے عرض کرنے لگے : اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! میری امت ، میری امت ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرئیل! میرے حبیب کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو (حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معلوم کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب عرض کردیا (حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ خوب جانتا ہے) اللّٰہ تعالیٰ نے جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا:اے جبرئیل! میرے حبیب کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لامّتہ وبکائہ شفقۃ علیہم، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲)، سنن الکبری للنسائی، کتاب التفسیر، سورۃ ابراہیم، ۶ / ۳۷۳، الحدیث: ۱۱۲۶۹)