Home ≫ ur ≫ Surah Ibrahim ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ(37)
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا:اے ہمارے رب! } اس آیت میں وادی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں اب مکہ مکرمہ ہے ۔ ذُرِّیَّت سے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مراد ہیں اور حرمت والے گھر سے بیتُ اللّٰہ مراد ہے جو طوفانِ نوح سے پہلے کعبہ مقدسہ کی جگہ تھا اور طوفان کے وقت آسمان پر اٹھالیا گیا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اس دعا کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سرزمینِ شام میں حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے جبکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی حضرت سارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکے ہاں کوئی اولاد نہ تھی، اس وجہ سے ان کے دل میں کچھ جذبات پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ ہاجرہ اور اُن کے بیٹے کو میرے پاس سے جدا کردیجئے۔حکمتِ الٰہی نے یہ ایک سبب پیدا کیا تھا ،چنانچہ وحی آئی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس سرزمین میں لے جائیں جہاں اب مکہ مکرمہ ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان دونوں کو اپنے ساتھ براق پر سوارکرکے شام سے سرزمینِ حرم میں لائے اور کعبہ مقدسہ کے نزدیک اتارا، یہاں اُس وقت نہ کوئی آبادی تھی نہ کوئی چشمہ نہ پانی، ایک توشہ دان میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی انہیں دے کر آپ واپس ہوئے اور مڑ کر اُن کی طرف نہ دیکھا ،حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے عرض کی ’’ آپ کہاں جاتے ہیں اور ہمیں اس وادی میں انیس و رفیق کے بغیر چھوڑے جاتے ہیں ؟لیکن حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اورا س کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے چند مرتبہ یہی عرض کیا اور جواب نہ پایا تو کہا کہ’’ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ ہاں ۔یہ سن کر انہیں اطمینان ہو گیا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لے گئے اور انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی جو آیت میں مذکور ہے ۔ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دودھ پلانے لگیں ،جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاپانی کی جستجو یا آبادی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں ،ایسا سات مرتبہ ہوا یہاں تک کہ فرشتے کے پر مارنے سے یا حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدم مبارک سے اس خشک زمین میں ایک چشمہ (زمزم) نمودار ہوا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ واقعہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہوا، آگ کے واقعہ میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا نہ فرمائی تھی اور اس واقعہ میں دعا کی اور عاجزی کا اظہار کیا ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی کارسازی پر اعتماد کرکے دعا نہ کرنا بھی توکل اور بہتر ہے لیکن مقامِ دعا اس سے بھی افضل ہے تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس دوسرے واقعہ میں دعا فرمانا اس لئے ہے کہ آپ مدارجِ کمال میں دَمبدم ترقی پر ہیں ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷-۸۸، ملخصاً)
{رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ:اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز
قائم رکھیں ۔}یعنی اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں نے اپنی اولاد کو
ناقابلِ زراعت وادی میں اس لئے ٹھہرایا
تاکہ حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کی اولاد اس وادی
میں تیرے ذکر اور تیری عبادت میں مشغول ہوں
اور تیرے بیتِ حرام کے پاس نماز قائم کریں
۔اے اللّٰہ !عَزَّوَجَلَّ، تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے تاکہ وہ اس وادی کے اَطراف
اور دیگر شہروں سے یہاں آئیں
اور ان کے دل اس پاکیزہ مکان کی زیارت کے شوق میں کھینچیں۔ اس میں ایماندار وں
کے لئے یہ دعا ہے کہ انہیں بیتُ اللّٰہ کا حج مُیَسّر آئے اور اپنے یہاں رہنے والی اولاد
کے لئے یہ دعا ہے کہ وہ زیارت کے لئے آنے والوں
سے فائدہ حاصل کرتے رہیں ۔ غرض یہ دعا دینی دنیوی دونوں طرح کی برکات پر مشتمل ہے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا
قبول ہوئی اور قبیلہ جُرْہَم نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا تو
انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا !شاید کہیں چشمہ نمودار ہوا ہے، جستجو کی تو دیکھا کہ زمزم
شریف میں پانی ہے یہ دیکھ کر ان لوگوں نے
حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہا سے وہاں
بسنے کی اجازت چاہی ،انہوں نے اس شرط سے اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔ وہ لوگ وہاں بسے اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوان ہوئے تو اُن لوگوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو دیکھ کر اپنے خاندان میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شادی
کردی،کچھ عرصے بعد حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہا کا وصال ہو گیا۔ اس طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا
پوری ہوئی اور آپ نے دعا میں یہ بھی
فرمایا’’ اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں ۔
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اسی دعاکا ثمرہ ہے کہ
بہار، خزاں اور گرمی سردی کی مختلف
فصلوں کے میوے وہاں بیک وقت موجود ملتے ہیں ۔ (مدارک، ابراہیم،
تحت الآیۃ: ۳۷، ص۵۷۲، خازن، ابراہیم،
تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۸۷-۸۸، روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۳۷، ۴ / ۴۲۷، ملتقطاً۔(