Home ≫ ur ≫ Surah Ibrahim ≫ ayat 5 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ﳔ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ(5)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا ۔} اس سے پہلی آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کی طرف ا س لئے بھیجا تاکہ آپ ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں ۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان انعامات کا ذکر فرمایا جو نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کی قوم کو عطا فرمائے تھے اور اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرما یا کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوموں کی طرف بھیجا تو ان لوگوں نے اپنے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کیسا معاملہ کیا تاکہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیّتوں پر صبر فرمائیں اور انہیں یہ بتا دیا جائے کہ سابقہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے درمیان کس قسم کا معاملہ ہوا تھا،اسی سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ نے بعض انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان فرمائے ان میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان فرمایا۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۴)
یاد رہے کہ آیت میں مذکور نشانیوں سے وہ معجزات مراد ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دے کر بھیجے گئے تھے جیسے عَصا کا سانپ بن جانا، ہاتھ کا روشن ہو جانا اوردریا کا پھٹ جانا وغیرہ۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۷۴)
{اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ:کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ۔} اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت کا مقصد ایک ہی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے ہدایت اور ایمان کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۴)
{وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ:اور انہیں اللّٰہ کے دن یا د دلاؤ۔} قاموس میں ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دنوں سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتیں مراد ہیں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس، حضرت اُبی بن کعب ،امام مجاہد اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی اَیَّامُ اللّٰہ کی تفسیر ’’اللّٰہ کی نعمتیں ‘‘ فرمائی ہے۔ مقاتل کا قول ہے کہ اَیَّامُ اللّٰہ سے وہ بڑے بڑے واقعات مراد ہیں جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے واقع ہوئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اَیَّامُ اللّٰہ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَن و سَلویٰ اُتارنے کا دن ،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۷۵، مدارک، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ص۵۶۳، ملتقطاً)بظاہر نعمت ِ الٰہی ملنے کے اَیّام والا معنی زیادہ قوی ہے کہ اگلی آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے عمل سے اسی کو واضح فرمایا ہے۔ اسی سے مسلمانوں کا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ مبارکہ کا جشن منانا بھی ثابت ہوتا ہے کہ اَیَّامُ اللّٰہ میں سب سے بڑی نعمت کا دن سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن ہے ، لہٰذا اس کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے اسی طرح اور بزرگوں پر جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں ہوئیں یا جن ایام میں عظیم واقعات پیش آئے ان کی یادگار یں قائم کرنا بھی اللّٰہ تعالیٰ کے دن یاد دلانے میں داخل ہے۔
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ:بیشک اس میں ہر بڑے صبرکرنے والے ،شکر گزار کیلئے نشانیاں ہیں ۔} یعنی بیشک ان اَیَّامُ اللّٰہ میں ہر اس شخص کے لئے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور مصیبتوں پر بڑا صبرکرنے والا اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر بڑا شکر گزار ہے ۔ (روح البیان، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۹۸)
مسلمانوں کو صبر و شکر کی نصیحت:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ زندگی میں اگر اس پر ایساوقت آئے جو ا س کی طبیعت کے مطابق اور اس کے ارادے کے موافق ہو تو وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر کرے اور اگر ایساوقت آئے جو اس کی طبیعت کے مطابق نہ ہو تو صبر کرے۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۵، ۷ / ۶۵) اور حضرت صہیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان مرد پر تعجب ہے کہ اس کے سارے کام خیر ہیں ، یہ بات مومن مرد کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی کہ اگر اسے راحت پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے لہٰذا اس کے لیے راحت خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے لہٰذا صبر اس کے لیے بہتر ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن امرہ کلّہ خیر، ص۱۵۹۸، الحدیث: ۶۴(۲۹۹۹))
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اگر کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرنے اور جب راحت ملے تو شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔