banner image

Home ur Surah Luqman ayat 14 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں  باپ کے بارے میں  تاکید فرمائی۔} اس آیت کی ابتدا میں  فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو اپنے ماں  باپ کا فرمانبردار رہنے ا ور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔ پھراس کاسبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کی ماں  نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں  اٹھائے رکھا،یعنی اس کی ماں  کی کمزوری میں  ہر وقت اضافہ ہوتا رہتا ہے ، جتنا حمل بڑھتا جاتا ہے اور بوجھ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی کمزوری میں  اضافہ ہوتا ہے ، عورت کو حاملہ ہونے کے بعد کمزوری ،تھکن اور مشقّتیں  پہنچتی رہتی ہیں  ، حمل خود کمزور کرنے والاہے، دردِ زِہ کمزوری پر کمزوری ہے اور وضعِ حمل اس پر اور مزید شدت ہے اور دودھ پلانا بھی مستقل مشقت کا ذریعہ ہے ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بچے کا دودھ چھڑانے کی مدت ولادت کے وقت سے لے کر دو سال تک ہے۔( جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۳۴۶-۳۴۷، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۷۰، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۹۱۷، ملتقطاً)

ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے:

            یہاں  ماں  کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی،دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں  رکھا،تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا،اس سے معلوم ہوا کہ ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ماں  کی باپ سے تین درجے زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  آکر عرض کی:میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، ’’تمہاری ماں ‘‘،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاراباپ۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)

ماں  کاحق باپ کے حق پرمقدم ہے:

             اعلیٰ حضرت، مُجدّدِدین وملت،شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِرَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں  :اولاد پرماں  باپ کا حق نہایت عظیم ہے اور ماں  کاحق اس سے اعظم، قَالَ اللہ تَعَالٰی:

’’وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا‘‘

ترجمہ: اور ہم نے تاکید کی آدمی کو اپنے ماں  باپ کے ساتھ  نیک برتاؤ کی اسے پیٹ میں  رکھے رہی اس کی ماں  تکلیف  سے اور اسے جنا تکلیف سے اور اس کاپیٹ میں  رہنا اور دودھ چھٹنا تیس مہینے میں  ہے۔

            اس آیہ کریمہ میں  رب العزت نے ماں  باپ دونوں  کے حق میں  تاکید فرماکر ماں  کو پھر خاص الگ کرکے گنا اور اس کی ان سختیوں  اور تکلیفوں  کو شمار فرمایا جو اسے حمل وولادت اور دوبرس تک اپنے خون کاعطر پلانے میں  پیش آئیں  جن کے باعث اس کاحق بہت اَشد واَعظم ہوگیا مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں  کہ خدمت میں ، دینے میں باپ پرماں  کوترجیح دے مثلاً سوروپے ہیں  اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر (یعنی ماں  کو فضیلت دینے میں  رکاوٹ) نہیں  توباپ کو پچیس دے ماں  کو پچھتر، یاماں  باپ دونوں  نے ایک ساتھ پانی مانگا توپہلے ماں  کو پلائے پھرباپ کو، یادونوں  سفر سے آئے ہیں  پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھرباپ کے، وَ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاس، نہ یہ کہ اگروالدین میں  باہم تنازع ہو توماں  کا ساتھ دے کر مَعَاذَ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یااسے جواب دے یابے اَدبانہ آنکھ ملا کر بات کرے، یہ سب باتیں  حرام اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَعْصِیَت ہیں ، (اس میں ) نہ ماں  کی اطاعت ہے نہ باپ کی، تو اسے ماں  باپ میں  سے کسی کاایساساتھ دیناہرگز جائزنہیں ، وہ دونوں  اس کی جنت ونار ہیں ، جسے ایذادے گا دوزخ کامستحق ہوگا وَ الْعِیَاذُ بِ اللہ، مَعْصِیَت ِخالق میں  کسی کی اطاعت نہیں ، اگرمثلاً ماں  چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کاآزار پہنچائے اور یہ نہیں  مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں  کے معاملہ میں ، ان کی ایسی ناراضیاں  کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں  گی کہ یہ ان کی نری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں  بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں  تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں  کوترجیح ہے جس کی مثالیں  ہم لکھ آئے ہیں ، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں  کابھی حاکم وآقا ہے(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴ / ۳۸۷-۳۹۰، ملتقطاً)۔([1])

{اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَ: کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔} یہ وہ تاکید ہے جس کا ذکر اوپر فرمایا تھا اور اس سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ والدین کا مقام انتہائی بلند ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ بندے کے والدین کا ذکر فرمایا اور ایک ساتھ دونو ں  کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا،اب اگر کوئی بد قسمت اپنے والدین کی خدمت نہ کرے اور انہیں  تکلیفیں  دے تو یہ ا س کی بد نصیبی اور محرومی ہے ۔حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس آیت کی تفسیر میں  فرماتے ہیں  کہ جس نے پنج گانہ نمازیں  ادا کیں  وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالایا اور جس نے پنج گانہ نمازوں  کے بعد والدین کے لئے دعائیں  کیں  تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی۔ (بغوی، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۴۲۳)


[1] ۔۔۔ یہ رسالہ تسہیل وتخریج کے ساتھ بنام ’’والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق‘‘ مکتبۃ المدینہ سے جداگانہ بھی شائع ہوا ہے، وہاں سے خرید کر اس کا مطالعہ فرمائیں۔