Home ≫ ur ≫ Surah Luqman ≫ ayat 15 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌۙ-فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا٘-وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(15)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اِنْ جَاهَدٰكَ: اور اگر وہ دونوں تجھ پر کوشش کریں ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندے ! تم علم سے تو کسی کو میرا شریک ٹھہرا ہی نہیں سکتے کیونکہ میرا شریک محال ہے ،ہو ہی نہیں سکتا ، اب تجھے جو کوئی بھی کسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرانے کا کہے گا تو وہ بے علمی ہی سے کہے گا،لہٰذا ایسا اگر ماں باپ بھی کہیں تو ان کا کہنا نہ مان، کیونکہ والدین کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن اگر وہ شرک یا گناہ کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہ کر کیونکہ خالق کی نافرمانی کرنے میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ،البتہ دنیا میں حسن ِاخلاق ، حسن ِسلوک ، احسان اور تَحَمُّل کے ساتھ اچھی طرح ان کا ساتھ دے لیکن دین میں ان کی پیروی نہ کر بلکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے راستے پر چل ، پھر مرنے کے بعد میری ہی طرف تمہیں اور تمہارے والدین کو لوٹ کرآنا ہے تو میں تمہیں تمہارے ایمان کی جزا دوں گا اور تمہارے والدین کو ان کے کفر کی سزا دوں گا۔(مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۹۱۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۷۰-۴۷۱، ملتقطاً)
حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرتاتھا اورجب میں نے اسلام قبول کرلیاتومیری ماں نے کہااے سعد! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ،یہ تو نے کیا نیا دین اختیار کر لیاہے،تجھے یہ دین چھوڑناہوگایامیں نہ کھاؤں گی ،نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مرجاؤں گی اور یوں میری وجہ سے تمہیں عاردلائی جائے گی اورتجھے یوں خطاب کیاجائے گا:اے اپنی ماں کے قاتل!۔ یہ سن کر میں نے کہا: اے میری ماں !ایسانہ کر،میں کسی بھی وجہ سے یہ دین نہیں چھوڑوں گا۔وہ ایک دن بغیرکچھ کھائے پئے رہی ،اس نے صبح کی توبڑی مشقت میں مبتلاتھی ۔پھر وہ ایک دن اوررات مزید اسی طرح رہی تواس کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔جب میں نے یہ دیکھاتو کہا:اے ماں ! اللہ تعالیٰ کی قسم! توجانتی ہے کہ اگرتیری سوجانیں ہوں اور ایک ایک کر کے تیری سب جانیں نکل جائیں ،تب بھی میں تیرے لئے اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔اب اگرتوچاہے توکھا ورنہ مت کھا،جب ماں نے یہ دیکھاتواس نے کھاناکھالیا۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (ابن عساکر، حرف السین، ذکر من اسمہ سعد، سعد بن مالک بن ابی وقاص بن اہیب۔۔۔ الخ، ۲۰ / ۳۳۱)
{وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ: اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔} اس سے مراد یہ ہے کہ دین میں حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے راستے پر چل۔اسی راہ کو مذہبِ سنّت و جماعت کہتے ہیں ۔اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے آدمی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے توآپ کے پاس حضرت عثمان ، طلحہ ،زبیر،سعد بن ابی وقاص اورحضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آئے اورکہاکہ اے ابو بکر! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ، کیا تم نے اس مرد کی تصدیق کی ہے اور اس پرایمان لے آئے ہو؟ توحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہاکہ ہاں میں ایمان لے آیاہوں اورصِدقِ دل سے ان کی رسالت کوتسلیم کرلیاہے ۔یہ سن کروہ سب سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۷۱)
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں والدین کی اطاعت نہیں :
والدین کی خدمت اگرچہ عظیم چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کے معاملے میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کیا جائے گا اور ا سی کی اطاعت کی جائے گی، لہٰذا اگروہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور کفر کرنے کاحکم دیں توان کایہ حکم نہیں مانا جائے گا ،اسی طرح اگروہ کسی فرض چیز کوچھوڑنے کاکہیں مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ تواس وقت بھی ان کاحکم ماننا لازم نہیں ۔
والدین سے متعلق اسلام کی شاندار تعلیمات:
دین ِاسلام میں والدین کی خدمت کرنے اور ان کے ساتھ حسن ِسلوک کرنے کو ایک خاص اہمیت دی گئی ہے اور ا س سے متعلق مسلمانوں کو خصوصی احکامات دئیے گئے ہیں حتّٰی کہ کافر والدین کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کرنے، ان کی خدمت کرنے، ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور نازیبا باتوں پر برداشت کا مظاہرہ کرنے اور ان پر احسان کرنے کی تعلیم دی گئی ہے،یہ دین ِاسلام ہی کا عظیم کارنامہ ہے جس نے والدین کے ماں باپ ہونے کے حق کو پورا کرنے کا حکم دیااور انہیں اَذِیّت و تکلیف پہنچانے سے منع کیا۔فی زمانہ والدین سے متعلق اولاد کا جوحال ہے وہ سب کے سامنے ہے،آج نازوں سے پلے ہوئے بچے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنے اور انہیں سنبھالنے کو بڑی مصیبت سمجھتے ہیں ،انہیں اچھا کھانا کھلانے ،اچھی رہائش دینے اور ان کے آرام وسکون کا خیال کرنے کو تیار نہیں اور کئی ملکوں میں تو اولاد کی اسی رَوِش کو دیکھ کر وہاں کے حکمرانوں نے ان بوڑھے والدین کو کچھ سہارا دینے کے لئے اولڈ ہاؤس قائم کر دئیے ہیں تاکہ یہ اپنی زندگی کے بقیہ دن وہاں کچھ تو چین سے گزار سکیں ،ایسے والدین کی حسرت و یا س کا کیا عالَم ہوتا ہو گا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ان حالات کے تَناظُر میں والدین سے متعلق دی ہوئی اسلام کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو اس سے صاف واضح ہوتا ہے دین ِاسلام میں والدین کو جو حق دئیے گئے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کے جو اَحکام دئیے گئے ان کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔