banner image

Home ur Surah Luqman ayat 16 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(16)

ترجمہ: کنزالایمان اے میرے بیٹے برائی اگر رائی کے دانہ برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں ہو الله اُسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے میرے بیٹے! برائی اگررائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ، الله اسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبُنَیَّ: اے میرے بیٹے!} آیت نمبر14اور15میں  جو مضمون بیان ہوا یہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا نہیں  ہے بلکہ انہوں  نے اپنے صاحبزادے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور شرک کی ممانعت کی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے والدین کی اطاعت کا حکم دیا اور اس کا محل بھی ارشاد فرما دیا ، اب یہاں  سے پھر حضرت لقما ن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا وہ قول ذکر کیا جارہا ہے جو انہوں  نے اپنے فرزند سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! برائی اگر رائی کے دانے کے برابر ہو اور اتنی چھوٹی ہونے کے ساتھ وہ کیسی ہی جگہ میں  ہو اور وہ جگہ کتنی ہی پوشیدہ ہو جیسے پتھر کی چٹان میں  ہو یا آسمانوں  میں  ہویا زمین میں  ہو، لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں  چھپ سکتی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے حاضر کر دے گا اور ا س کا حساب فرمائےگا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر باریکی کو جاننے والا اور ا س سے خبردار ہے اوراس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا اِحاطہ کئے ہوئے ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی اس شان کو پہچان لے تو وہ برائی کرنے سے ضرور ڈرے گا۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷ / ۸۱، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۴۷۱، ملتقطاً)

بظاہرمعمولی سمجھے جانے والے اعمال کا بھی حساب ہو گا:

             اس آیت میں  ہم سب کیلئے عبرت ہے کہ ہمارا معمولی سے معمولی عمل بھی قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں  پیش کیا جائے گااور اس کا حساب دینا ہوگا۔اسی سے متعلق ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ‘‘( زلزال:۷،۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر بُرائی کرے وہ اسے دیکھے گا۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ‘‘(انبیاء:۴۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو  رکھیں  گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں  گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

            اور بظاہر چھوٹے سمجھے جانے والے اعمال پر بعض اوقات کس طرح گرفت ہوتی ہے ا س سے متعلق یہ حکایات ملاحظہ فرمائیں  ،حضرت حارث محاسبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ غلہ ماپنے والا ایک شخص اس کام کوچھوڑکر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں  مشغول ہوگیا۔جب وہ مرگیاتواس کے بعض احباب نے اسے خواب میں  دیکھا تو پوچھا ’’مَافَعَلَ اللہ بِکَ‘‘یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے ساتھ کیامعاملہ کیا؟اس نے کہا:میراوہ پیمانہ جس میں  غلہ وغیرہ ماپاکرتاتھا،اس میں  (میری بے احتیاطی کی وجہ سے) کچھ مٹی سی بیٹھ گئی تھی جس کومیں  نے لاپرواہی کے سبب صاف نہ کیاتوہرمرتبہ ماپنے کے وقت اس مٹی کی مقدار کم ہوجاتاتھا۔میں  اس قصورکے سبب عتاب میں  گرفتار ہوں ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاول، ومن اخلاقہم کثرۃ الخوف من اللّٰہ تعالی ان یعذّبہم۔۔۔ الخ، ص۵۱، ملخصاً)

            لہٰذاہمیں  دنیا میں  ہی اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کابھی محاسبہ کر لینا اور برے اعمال سے سچی توبہ کر لینی چاہئے تاکہ مرنے کے بعد ہونے والی گرفت اور آخرت کے سخت حساب سے بچ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔