banner image

Home ur Surah Luqman ayat 19 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(19)

ترجمہ: کنزالایمان اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک سب آوازوں میں بری آواز، گدھے کی آواز۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چل اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ: اور اپنے چلنے میں  درمیانی چال سے چل۔} حضرت لقما ن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا:اے میرے بیٹے! جب تم چلنے لگو تونہ بہت تیز چلو اور نہ بہت سست کیونکہ یہ دونوں  باتیں  مذموم ہیں،  ایک میں  تکبر کی جھلک ہے اور ایک میں  چھچھورا پن ہے بلکہ تم درمیانی چال سے چلو نیزشور کرنے اور چیخنے چِلانے سے احتراز کرو ،بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔مقصودیہ ہے کہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں  کچھ فضیلت نہیں  ، جیسے گدھے کی آواز کہ بلند ہونے کے باوجود مکروہ اور وحشت انگیز ہے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۴۷۱، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۹۱۹، ملتقطاً)

آہستہ چلنے کی فضیلت اوربہت تیز چلنے کی مذمت:

اطمینان اور وقار کے ساتھ ،عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلنا کامل ایمان والوں  کا وصف ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا‘‘(فرقان:۶۳)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پرآہستہ چلتے ہیں ۔

اوراتنا تیز چلنا جو بھاگنے کے مشابہ ہواس کے بارے میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تیز چلنا مومن کا وقار کھودیتا ہے۔(مسند الفردوس، باب السین، ۲ / ۳۳۴، الحدیث: ۳۵۰۸)

چلنے میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

یہاں  حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چلنے سے متعلق دو صحابہ ٔ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے اقوال ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰیوَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں  کہ چلتے وقت حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں ۔( شمائل ترمذی، باب ما جاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۱۹، الحدیث: ۶)

(2)…حضرت ہند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں ’’حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چلنے میں  اطمینان سے قدم اٹھاتے ،وقار کے ساتھ جھک کر چلتے ،قدم لمبا رکھتے او ر جب آپ چلتے تو یوں  محسوس ہوتا کہ گویا آپ اوپر سے نیچے اتر رہے ہوں۔(الشفا،القسم الاول،الباب الثانی،فصل قد اتیناک اکرمک اللّٰہ من ذکر الاخلاق الحمیدۃ۔۔۔الخ،ص۱۵۷،الجزء الاول) 

چلنے کی سنتیں  اورآداب:

 آیت کی مناسبت سے یہاں  چلنے کی 7سنتیں  اور آداب ملاحظہ ہوں :

(1)…جوتا پہن کر چلیں ۔

(2)…کوشش کر کے راستے کے کنارے چلیں  درمیان میں  نہ چلیں  ۔

(3)…درمیانی چال چلیں  ،نہ اتناتیز کہ لوگوں  کی نظریں  اٹھیں  اور نہ اتناآہستہ کہ آپ مریض معلوم ہوں ۔

(4)…احمقوں  اور مغروروں  کی طرح گریبان کھول کر،سینہ تان کرنہ چلیں  بلکہ شریفوں  کی طرح چلیں  ۔

(5)…راستے میں  دوعورتیں  کھڑی ہوں  یاجارہی ہوں  توان کے بیچ میں  سے نہ گزریں  بلکہ دائیں  یا بائیں  طرف سے گزر جائیں ۔

(6)…بلا ضرورت ادھرادھر دیکھتے ہوئے نہ چلیں  بلکہ بدنگاہی سے بچتے ہوئے نیچی نظریں  کرکے چلیں ۔

(7)…یہ بھی خیال رکھئے کہ چلتے وقت جوتے کی آواز پیدانہ ہو۔

سرکارِدو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چلتے وقت جوتوں  کی آواز ناپسند تھی ،چنانچہ حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت گرمی کے دن بقیعِ غرقد کی طرف تشریف لے جاتے اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے دوسرے لوگ آتے ۔جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے جوتوں  کی آواز سنتے تویہ بات آپ کوبہت ناگوارمعلوم ہوتی ۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ جاتے حتّٰیکہ وہ لوگ آگے نکل جاتے اورآپ یہ عمل اس لئے فرماتے تاکہ دل میں  فخرپیدانہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب من کرہ ان یوطأ عقباہ، ۱ / ۱۶۰، الحدیث: ۲۴۵)

ضرورت سے زیادہ بلند آواز سے گفتگو کرنے اور زیادہ باتیں  کرنے کی مذمت:

ضرورت سے زیادہ آواز بلند کر کے اور چِلا چِلا کر گفتگو کرناایک ناپسندیدہ فعل ہے اور اس کی مذمت بیان کرنے کے لئے یہاں  اس کی مثال گدھے کی آواز سے دی گئی ہے اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ وہ کسی شخص کو بلند اور سخت آواز سے کلام کرتا ہوا دیکھیں  اور یہ پسند فرماتے تھے کہ وہ اسے نرم آواز سے کلام کرتا ہو ادیکھیں۔( معجم الکبیر،صدی بن العجلان ابوامامۃ الباہلی۔۔۔الخ، القاسم بن عبد الرحمٰن۔۔۔ الخ، ۸ / ۱۷۷، الحدیث: ۷۷۳۶)

اور بلا ضرورت زیادہ باتیں  کرنے والے کے بارے میں  حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:بے شک تم میں  سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن میرے زیادہ نزدیک وہ لوگ ہوں  گے جوتم میں  سے زیادہ اچھے اَخلاق والے ہوں  گے اورتم میں  سے مجھے سب سے زیادہ ناپسنداورقیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور ہونے والے وہ لوگ ہوں  گے جوزیادہ باتیں  کرنے والے ،لوگوں  سے زبان درازی کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں  گے۔( ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی معالی الاخلاق، ۳ / ۴۰۹، الحدیث: ۲۰۲۵)

             اللہ تعالیٰ ہمیں  ناپسندیدہ گفتگو سے بچنے اور اچھی گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

گفتگو کرنے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت:

سیرت کی کتابوں  میں  مذکور ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں  فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی مَتانَت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے اور آپ کا کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے اوراگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملے کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سننے والے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا ضرورت گفتگو نہیں  فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’جامع کلمات‘‘ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملے میں  لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔

بات چیت کرنے کی سنتیں  اورآداب:

آیت کی مناسبت سے یہاں  بات چیت کرنے کی6 سنتیں  اور آداب بھی ملاحظہ ہوں  تاکہ ہماراچلناپھرنا بھی اورگفتگوکرنابھی سنت کے مطابق ہو۔

(1)…مسکراکر اورخندہ پیشانی سے بات چیت کرناسنت ہے ۔

(2)… چِلا چِلا کربات کرنا جیساکہ آج کل ہمارے ہاں  رائج ہے ،یہ خلافِ سنت ہے ۔

(3)… گفتگو کرتے وقت چھوٹوں  کے ساتھ شفقت بھرا اوربڑوں  کے سامنے ادب والالہجہ رکھئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں  کے نزدیک آپ معززرہیں  گے ۔

(4)…جب تک دوسرابات کررہاہو تب تک اطمینان سے سنیں  اوراس کی بات کاٹ کراپنی بات شروع نہ کردیں ۔

(5)…بلا ضرورت زیادہ باتیں  نہ کریں  اور نہ ہی دورانِ گفتگو زیادہ قہقہے لگائیں  کہ زیادہ باتیں  کرنے اورقہقہہ لگانے سے وقار مجروح ہوتاہے۔

(6)…دورانِ گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پرتالی دینا ٹھیک نہیں  ہے کہ یہ مُعَزّز و مُہَذَّب لوگوں  کے طریقے کے خلاف ہے۔

             اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعاہے کہ ہمیں  سنت کے مطابق گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اولاد کی تربیت میں  قابلِ لحاظ اُمور:

حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی جو نصیحتیں  یہاں  ذکر ہوئیں  ،ان سے معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں  والدین کو درج ذیل4 اُمور کا بطورِ خاص لحاظ کرنا چاہئے،

(1)… ان کے عقائدکی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔

(2)… ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔

(3)…ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔

(4)…ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ چاروں  چیزیں  دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں ،جیسے عقائد کی درستی دنیا میں  بلاؤں  اور مصیبتوں  سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں  ، مصیبتوں  اور بلاؤں  کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں  داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تووہ جہنم میں  جانے کا مستحق ہوگیا اورجو کفر کی حالت میں  مر گیا وہ توضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا ۔اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں  گے تو دنیا میں  نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں  اور آخرت میں  جنت میں  جانے کاوسیلہ ہیں  اور اگر درست نہ ہوں  گے تو دنیا میں  ذلت و رسوائی کا سامان ہیں  اور آخرت میں جہنم میں  جانے کاذریعہ ہیں ،یونہی اخلاق اچھے ہوں  گے تو معاشرے میں  قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اس کی عزت کریں  گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں  معاشرے میں  اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہو گا اور اچھے اخلاق آخرت میں  اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں  جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں  کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں  ۔افسوس! ہمارے معاشرے میں  والدین اپنے بچوں  کی تربیت کے معاملے میں  یہ تو دیکھتے ہیں  کہ ان کا بچہ دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری میں  کتنا اچھا اور چالاک ، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں  کہ اس کے عقائد و نظرِیّات کیا ہیں  اور ا س کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جا رہے ہیں  ۔والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کی زندگی میں  کامیاب انسان بنے ،اس کے پاس عہدے اور منصب ہوں ،عزت،دولت اور شہرت ا س کے گھر کی کنیز بنے لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے ، مسلمان ماں  باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو ،اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں  اوراس کا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دنیا میں  خوب ترقی کرے تاکہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سَنْوَر جائے اور انہیں  بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں  کرتے کہ ان کی اولاد قبر کی زندگی میں  ان کے چین کاباعث بنے اور آخرت میں  ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں  اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں  کا حصول ہے ، ان کے لئے درج ذیل آیات میں  بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود: ۱۵، ۱۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں  انہیں  ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں  گے اور انہیں  دنیا میں  کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں  جن کے لیے آخرت میں  آگ کے سوا کچھ نہیں  اور دنیا میں  جو  کچھ انہوں  نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال  باطل ہیں ۔

اور ارشاد فرماتا ہے:

’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۸، ۱۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں  اس کیلئے دنیا میں  جو چاہتے ہیں  جلد دیدیتے ہیں  پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں  وہ  مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس  کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں  جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لئے دنیا و آخرت دونوںمیں  کامیابی کاذریعہ بنے اور والدین کے دُنْیَوی سکون اور اُخروی نجات کاسامان ہو ،اٰمین۔