Home ≫ ur ≫ Surah Luqman ≫ ayat 20 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ-وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیْرٍ(20)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ تَرَوْا: کیا تم نے نہ دیکھا۔} اس سے پہلی آیات میں حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی ان نصیحتوں کابیان ہوا جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائیں اور اب یہاں سے وہ نعمتیں ذکر کی جا رہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت پر اِستدلال ہوتا ہے،چنانچہ ارشادفرمایا کہ اے لوگو!کیا تم نے نہ دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہیں جیسے سور ج ، چاند اور ستارے اور جو کچھ زمین میں ہیں جیسے دریا ، نہریں ، کانیں ، پہاڑ ، درخت ، پھل ، چوپائے وغیرہ ،ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل قدرت سے تمہارے لیے کام میں لگارکھا ہے جس کے نتیجے میں تم آسمانی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور زمینی چیزوں سے فائدے حاصل کرتے ہو۔( تفسیرکبیر، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۹ / ۱۲۳-۱۲۴، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۳۴۷، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ص۹۲۱، ملتقطاً)
{وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةً: اور اس نے تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں ۔} یہاں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں جن میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ مختلف افراد کو مختلف نعمتیں عطا کی گئیں ،ان مختلف اقوال میں سے 6قول درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :ظاہری نعمت سے مراد اسلام اور قرآن ہے اور باطنی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہوں پر پردے ڈال دیئے، تمہاری پوشیدہ باتیں نہ کھولیں اور تمہیں سزا دینے میں جلدی نہ فرمائی۔
(2)… ظاہری نعمت سے مراد اَعضا ء کی درستی اور صورت کا حسن ہے اور باطنی نعمت سے مراد دل کا اعتقاد ہے۔
(3)… ظاہری نعمت سے مراد رزق ہے اور باطنی نعمت سے مراد حسن ِخُلق ہے۔
(4)…ظاہری نعمت سے مراد شرعی اَحکام کا ہلکا ہونا ہے اور باطنی نعمت سے مراد شفاعت ہے۔
(5)…ظاہری نعمت سے مراد اسلام کا غلبہ اور دشمنوں پر فتح یاب ہونا ہے اور باطنی نعمت سے مراد فرشتوں کا امداد کے لئے آنا ہے ۔
(6)… ظاہری نعمت سے مراد رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ہے اور باطنی نعمت سے مراد ان کیمحبت ہے۔(خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۷۲)
یہ تو چند نعمتیں ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو اتنی کثیر ہیں کہ انہیں شمار ہی نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا‘‘(ابراہیم:۳۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس نے تمہیں وہ بھی بہت کچھ دیدیا جو تم نے اس سے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے۔
تو کیا یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ۔
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ: اورکچھ لوگ اللہ کے بارے میں علم کے بغیر جھگڑتے ہیں ۔} ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے ،نہ عقل اورنہ ہی کوئی روشن کتاب ہے ،اس لئے وہ جو کہیں گے جہالت اور نادانی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی شان میں اس طرح کی جرأت اور لب کشائی انتہائی بیجا اور گمراہی ہے ۔ شانِ نزول: یہ آیت نضر بن حارث ،اُبی بن خلف ،امیہ بن خلف اوران جیسے دیگرکفار کے بارے میں نازل ہوئی جو بے علم اور جاہل ہونے کے باوجود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق جھگڑے کیا کرتے تھے۔( خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۴۷۲)
نوٹ:اس آیت کی تفسیر سے متعلق مزید کلام سورہِ حج کی آیت نمبر8کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
یہاں جو بات نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ عقائد میں کلام کرنے کو لوگوں نے بہت آسان سمجھ رکھا ہے اور اگر عوام میں بیٹھ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے لوگوں نے جیسے سیاست و ریاست کے ہر مسئلے پر کلام کرنے کو اپنا حق سمجھ لیا ہے اسی طرح دین، اسلام، قرآن، ایمان، آخرت اور خدا کے بارے میں بھی بے سوچے سمجھے بس اپنے دماغ میں اپنی کوئی من پسند یا سنی سنائی بات بٹھا کر کلام کرلینے کو آسان سمجھ لیا ہے۔ یہ نہایت خطرناک رَوِش ہے۔ سیاست وغیرہ میں لوگ مختلف نکتہ ہائے نظر رکھ سکتے ہیں لیکن عقائد اور دین کا معاملہ ایسانہیں ہے وہاں مُتَعَیّن طور پر وہی عقیدہ رکھنا فرض ہے جو قرآن و حدیث میں آیا ہے اور جسے امت ِ مُسلِمہ نے اپنایا ہے۔ اس لئے ایمان کی حفاظت اسی میں ہے کہ عقیدے کے معاملے میں کوئی بھی شخص اپنی ذاتی رائے ہرگز نہ دے بلکہ کوئی بات ہو تو فوراً یہی کہے کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوا اور میں اپنی رائے سے نہ کوئی بات کہنا چاہتا ہوں اور نہ امت ِ مسلمہ سے ہٹ کر کسی کی رائے سننا چاہتا ہوں ۔
علماء اور مُفتیانِ کرام سے مسائل پوچھنے والوں کو نصیحت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم کے بغیر دینی احکام اور مسائل میں بحث نہیں کرنی چاہئے ،اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرناچاہئے جوعلماء اور مُفتیانِ کرام سے مسائل پوچھنے آتے ہیں اورجب انہیں اپنی پسند اور مراد کے مطابق جواب نہیں ملتا تو وہ جاہلوں کی طرح جھگڑاشروع کر دیتے ہیں ۔یاد رہے کہ ایک عالم اور مفتی کی ذمہ داری شریعت کے حکم کو بیان کرنا ہے جبکہ عوام کی ذمہ داری اس حکم کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ بحث کرنا اور جاہلوں کی طرح جھگڑا شروع کردینا تو کسی مسلمان کی شان نہیں بلکہ یہ تو کافروں کا طریقہ ہے، لہٰذا اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے۔