banner image

Home ur Surah Luqman ayat 27 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(27)

ترجمہ: کنزالایمان اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہو اس کے پیچھے سات سمندر اور تو الله کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک الله عزت و حکمت والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جاتے اور سمندر (ان کی سیاہی، پھر) اس کے بعد اس (پہلی سیاہی) کو سات سمندر مزید بڑھادیتے تو بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوتیں بیشک الله عزت والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ: اور زمین میں  جتنے درخت ہیں  اگر وہ سب قلمیں  بن جاتے} اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے اپنی عظمت کا بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ساری زمین میں  موجود تمام درختوں کی قلمیں  بنادی جائیں  جو کھربوں  سے بھی کھربوں  گنا زیادہ ہوں  گی اور لکھنے کے لئے سمندر بلکہ سات سمندروں  کو سیاہی بنا لیاجائے اور ان قلموں  اور سیاہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عظمت مثلاً علم، قدرت، صِفات کو لکھا جائے توسارے قلم اور سمندر ختم ہوجائیں  لیکن عظمت ِ الٰہی کے کلمات ختم نہ ہوں  کیونکہ سمندر سات ہوں  یا کروڑوں ، جتنے بھی ہوں  بہر حال وہ محدود ہیں  اور ان کی کوئی نہ کوئی انتہاء ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی کوئی انتہاء نہیں ، تو مُتناہی چیز غیر متناہی کا اِحاطہ کر ہی نہیں  سکتی۔

            اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اقوال ہیں  ،ان میں  سے دوقول درج ذیل ہیں ۔

(1)…جب تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودیوں  کے علماء نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  حاضر ہو کر کہا: ہم نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ یعنی تمہیں  تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ تو اس سے آپ کی مراد ہم لوگ ہیں  یا صرف آپ کی قوم؟ ارشاد فرمایا’’ سب مراد ہیں  ۔انہوں  نے کہا: کیا آپ کی کتاب میں  یہ نہیں  ہے کہ ہمیں  توریت دی گئی ہے اور اس میں  ہر چیز کا علم ہے؟ حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ ہر چیز کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے علم کے سامنے قلیل ہے اور تمہیں  تو اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کرو تو نفع پاؤ گے۔ انہوں  نے کہا :آپ کیسے یہ خیال فرماتے ہیں  حالانکہ آپ کا قول تو یہ ہے کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر دی گئی، تو قلیل علم اور کثیر خیر کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس صورت یہ آیت مدنی ہوگی ۔

(2)…یہودیوں  نے قریش سے کہا تھا کہ مکہ میں  جا کر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس طرح کا کلام کریں۔(مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۹۲۱، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ص۳۴۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۷۳، ملتقطاً)