banner image

Home ur Surah Luqman ayat 30 Translation Tafsir

لُقْمٰن

Luqman

HR Background

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ٘-كُلٌّ یَّجْرِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(29)ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ(30)

ترجمہ: کنزالایمان اے سننے والے کیا تو نے نہ دیکھا کہ الله رات لاتا ہے دن کے حصے میں اور دن کرتا ہے رات کے حصے میں اور اس نے سورج اور چاند کام میں لگائے ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے اور یہ کہ الله تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ یہ اس لیے کہ الله ہی حق ہے اور اس کے سوا جن کو پوجتے ہیں سب باطل ہیں اور اس لیے کہ الله ہی بلند بڑائی والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا کہ الله رات کو دن میں داخل کردیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگادیا ،ہر ایک ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے اوریہ کہ الله تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ الله ہی حق ہے اور اس کے سوا جن کو لوگ پوجتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ الله ہی بلند ی والا، بڑائی والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَمْ تَرَ: اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا۔} یہاں  سے ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر دلائل بیان کئے جا رہے ہیں ،چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے سننے والے! کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور حکمت سے ایک موسم میں رات کے کچھ حصے کو کم کر کے دن میں  داخل کردیتا ہے اور ایک موسم میں دن کے کچھ حصے کو بڑھا کر رات میں  داخل کردیتا ہے اور جو وقت ایک میں  سے کم کرتا ہے اسے دوسرے میں  بڑھا دیتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو بندوں  کے نفع کے لئے کام میں  لگادیا ہے اوران میں  سے ہر ایک ،مقررہ مدت تک اپنی مخصوص رفتار سے چلتارہے گا اورکیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں  سے خبردار ہے۔یہ جو عجائبات بیان ہوئے ان پر صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے، ا س لئے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے سوا جن کو لوگ پوجتے ہیں  وہ سب باطل اور فنا ہونے والے ہیں ، لہٰذا ان میں  سے کوئی عبادت کا مستحق نہیں  ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت و عظمت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی ذات و صفات میں  بلند ی والا اور بڑائی والا ہے۔( روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۷ / ۹۶-۹۸، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ۳ / ۴۷۳، مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۹۲۱، جلالین، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹-۳۰، ص۳۴۸، ملتقطاً)

            یاد رہے کہ آیت نمبر29میں  جو سورج اور چاند کے بارے میں  فرمایا گیا کہ ’’ ہر ایک ایک مقررہ مدت تک چلتا ہے‘‘اس میں  مقررہ مدت سے مراد قیامت کا دن ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں  اپنے اپنے مُعَیَّن اوقات تک چلتے ہیں  جیسے سورج سال کے آخر تک اور چاند مہینے کے آخر تک چلتا ہے۔( مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۹۲۱)

            نیزخیال رہے کہ اگرچہ بعض کفار انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پوجتے ہیں  مگر ان بزرگوں  کو باطل نہیں  کہا جاسکتا ،وہ بالکل حق ہیں  البتہ ان کی عبادت کرنا باطل ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’مَا‘‘ ذکر فرمایا ہے اوریہ لفظ عربی زبان میں  بے عقل چیزوں  کے لئے آتا ہے تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جن پتھروں  اور درختوں  وغیرہ بے جان چیزوں  کو لوگ پوجتے ہیں  وہ باطل ہیں ۔ یا یہاں  یہ لفظ مصدر کے معنی میں  ہے یعنی تمہارااللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پوجنا باطل اور جھوٹ ہے۔