banner image

Home ur Surah Maryam ayat 26 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًاۚ-فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًاۙ-فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا(26)

ترجمہ: کنزالایمان تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمٰن کا روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کرو ں گی ۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ میں نے آج رحمٰن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا:تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاسے فرمایا گیا کہ آپ کھجوریں  کھائیں  اور پانی پئیں  اور اپنے فرزند حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھیں ، پھر اگر آپ کسی آدمی کو دیکھیں  کہ وہ آپ سے بچے کے بارے میں  دریافت کرتا ہے تو اشارے سے اسے کہہ دیں  کہ میں  نے آج رحمٰن کیلئے روزہ کی نذر مانی ہے تو آج ہرگز میں  کسی آدمی سے بات نہیں  کروں  گی۔ حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہاکو خاموش رہنے کی نذر ماننے کا اس لئے حکم دیا گیا تاکہ کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں  اور ان کا کلام مضبوط حجت ہو جس سے تہمت زائل ہو جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوقوف کے جواب میں  خاموش رہنا اور منہ پھیر لینا چاہئے کہ جاہلوں  کے جواب میں  خاموشی ہی بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ کلام کو افضل شخص کے حوالے کر دینا اَولیٰ ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۲۳۳، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۶۷۱-۶۷۲، ملتقطاً)

چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہو چکا ہے:

            یاد رہے کہ پہلے زمانہ میں  بولنے اور کلام کرنے کا بھی روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں  کھانے اور پینے کا روزہ ہوتا ہے، البتہ ہماری شریعت میں  چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی کریم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَومِ وصال (یعنی سحری اور افطار کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے) اور چپ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔(مسند امام اعظم، باب العین، روایتہ عن عدی بن ثابت، ص۱۹۲)