Home ≫ ur ≫ Surah Maryam ≫ ayat 42 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْــٴًـا(42)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ:جب اپنے باپ سے فرمایا: اے میرے باپ! تم کیوں ایسے کی عبادت کررہے ہو۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں دینے والا ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لئے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے، جبکہ تم جن بتوں کی عبادت کررہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں بلکہ یہ خود تمہارے محتاج ہیں کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں جاسکتے اور تم نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تھا یا چچا؟
قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد کوتوحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں اس کا نام آزر بھی مذکور ہے، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ تھا، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں میں تارخ کو آزر بولا جاتا تھا، بعض کہتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ نہیں بلکہ چچا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ علماءِ اہلسنّت میں سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اجداد میں کوئی کافر نہ تھا، جیساکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک خواتین کے رحموں میں مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں جبکہ مشرک تونَجَس ہیں ۔اورامام رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کامذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی۔ علماءِ اہلسنّت کی اکثریت کاقول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے۔( روح المعانی، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ۴ / ۲۵۳)
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ َالسَّلَام کے چچا کانام ہے۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی(رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ )نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں حضرت اسماعیل (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کوحضرت یعقوب( عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا، چنانچہ ارشاد کیا ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس( رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ) مراد ہیں ۔( خزائن العرفان، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۲۶۱) لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔