banner image

Home ur Surah Maryam ayat 46 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِیْ یٰۤاِبْرٰهِیْمُۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِیْ مَلِیًّا(46)

ترجمہ: کنزالایمان بولا کیا تو میرے خداؤں سے منہ پھیرتا ہے اے ابراہیم بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھراؤ کروں گا اور مجھ سے زمانہ دراز تک بے علاقہ ہوجا۔ ترجمہ: کنزالعرفان بولا: کیا تو میرے معبودوں سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر ماروں گا اور تو عرصہ دراز کیلئے مجھے چھوڑ دے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ قَالَ:بولا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی لطف آمیز نصیحت اور دل پذیر ہدایت سے آزر نے نفع نہ اٹھایا اور وہ ا س کے جواب میں  بولا: کیا تو میرے معبودوں  سے منہ پھیرتا ہے؟ اے ابراہیم ! بیشک اگر تو بتوں  کی مخالفت کرنے، اُنہیں  برا کہنے اور اُن کے عیب بیان کرنے سے باز نہ آیا تو میں  تجھے پتھر ماروں  گا اور تو عرصۂ دراز کیلئے مجھ سے کلام کرنا چھوڑ دے تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امن میں  رہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳۷)

نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والوں  کیلئے درس:

            امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نصیحت کرنے کا انداز اور ان کے جواب میں  آزر کا طرزِ عمل اپنے حبیب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے اس لئے بیان فرمایا تاکہ مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں  پر آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دل ہلکا ہو اور آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جان جائیں  کہ جاہلوں  کا یہ مذموم طرزِ عمل (کوئی آج کا نہیں  بلکہ) عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے۔( تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: ۴۶، ۷ / ۴۴۵)

            اس میں  ان مسلمانوں  کے لئے بھی درس ہے جو دینِ اسلام اور اس کے اَحکام کی دعوت دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں  کہ اگر اس دوران انہیں  کسی کافر یا کسی مسلمان کی طرف سے کسی ناقابلِ برداشت سلوک کا سامنا کرنا پڑے تو وہ رنجیدہ ہو کر اس فریضہ کی بجا آوری کو چھوڑ نہ دیں  بلکہ ایسے موقع پر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں  کے واقعات کو یاد کریں  کہ ان بزرگ ترین ہستیوں  نے کس طرح اسلام کی دعوت دی اور انہیں  نافرمان اور سرکش کفار کی طرف سے کیسی کیسی اَذِیَّتوں  کا سامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں  نے تمام تر تکلیفوں  کے باوجود دین ِاسلام کی دعوت دینے کو نہیں  چھوڑا تو ہم بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے دین ِاسلام اور اس کے احکام کی دعوت دینا نہیں  چھوڑیں  گے۔ اس سے اِنْ شَآء  اللہ دل کو تسلی ملے گی اور اسے مزید تَقْوِیَت حاصل ہو گی۔