banner image

Home ur Surah Maryam ayat 56 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(56)

ترجمہ: کنزالایمان اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچا نبی تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ:اور کتاب میں  ادریس کو یاد کرو۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہماری اس کتاب میں  حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر فرمائیں  ، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مختصر تعارف:

            آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام اخنوخ ہے اور آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت نوح عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کے دادا ہیں ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد حضرت شیث بن آدم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں  کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں  پہنتے تھے ۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں  نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں  اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔  اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کاکثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۳ / ۲۳۸، مدارک، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۶۷۷، روح البیان، مریم، تحت الآیۃ: ۵۶، ۵ / ۳۴۱، ملتقطاً)

درسِ قرآن اور درسِ علمِ دین کے فضائل:

            حضرت ادریس عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے، اس سے معلوم ہو اکہ  اللہ تعالیٰ کی کتاب کا درس دینا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے ،اس مناسبت سے یہاں  قرآنِ مجید کا درس دینے کی فضیلت اور علمِ دین کا درس دینے کے دو فضائل ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو لوگ  اللہ تعالیٰ کے گھروں  میں  سے کسی گھر میں  جمع ہوتے ہیں  اور وہ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کو اس کادرس دیتے ہیں  تواُن پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت انہیں  ڈھانپ لیتی ہے اور  اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں  میں  فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر، ص۱۴۴۷، الحدیث: ۳۸(۲۶۹۹))

(2)…حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ وہ عالِم جو صرف فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا پھر لوگوں  کو علمِ دین سکھاتا ہے اس کی بزرگی اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا ہے، ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔(دارمی، باب من قال: العلم الخشیۃ وتقوی اللّٰہ، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۸۹)

(3)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں  ’’ رات میں  ایک گھڑی علم کا پڑھنا پڑھانا پوری رات (عبادت کرتے ہوئے) بیدار رہنے سے افضل ہے۔(دارمی، باب العمل بالعلم وحسن النیّۃ فیہ، ۱ / ۹۴، الحدیث: ۲۶۴)

قرآنِ مجید کا درس دینے سے متعلق اہم تنبیہ:

            یاد رہے کہ جو شخص عالِم نہیں  اس کا درسِ قرآن دینا جائز نہیں  ہاں  اگر وہ کسی سُنّی ، صحیح العقیدہ ماہر عالِم کی لکھی ہوئی تفسیر سے صرف وہی الفاظ پڑھ کر سناتا ہے جو انہوں  نے لکھے ہیں  اور اس کی اپنی طرف سے کوئی وضاحت یا تشریح نہیں  کرتا تو یہ جائز ہے، یونہی علماء میں  سے بھی انہیں  ہی درسِ قرآن دینا چاہئے جنہوں  نے معتبر علماءِ کرام کی تفاسیر، اَحادیث اور ان کی شروحات، فقہی اَحکام اور دیگر ضروری علوم کا مُعْتَدْبِہا (اچھا خاصا) مطالعہ کیا ہو۔ درسِ قرآن دینے والا ہر شخص ان 3 اَحادیث کو ضرور اپنے پیش ِنظر رکھے :

(1)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  علم کے بغیر کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں  بنالے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۵۹)

(2)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو قرآن میں  اپنی رائے سے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ، ۴ / ۴۳۹، الحدیث: ۲۹۶۰)

(3)…حضرت جندب رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے ،رسول اکرم صَلَّی اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو قرآن میں  اپنی رائے سے کہے پھر ٹھیک بھی کہہ دے تب بھی وہ خطا کر گیا۔(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن عن رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی الذی یفسّر القرآن برأیہ ، ۴ / ۴۴۰ ، الحدیث: ۲۹۶۱)