banner image

Home ur Surah Maryam ayat 59 Translation Tafsir

مَرْيَم

Maryam

HR Background

فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(59)

ترجمہ: کنزالایمان تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے ۔} اس آیت میں  انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے ناخلف اور نالائق لوگوں  کی دو خرابیاں  بیان کی گئی ہیں ۔ (1)…انہوں  نے نمازیں  ضائع کیں۔ اس سے مراد فرض نمازیں  چھوڑ دینا یا نماز کا وقت گزار کر نماز پڑھنا مراد ہے، مثلاً ظہر کی نماز عصر میں  اور عصر کی مغرب میں  پڑھنا۔ (2)…اپنی خواہشوں  کی پیروی کی۔ یعنی انہوں  نے  اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کو ترجیح دی اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی بجائے گناہوں  کو اختیار کیا۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۲۴۰)ایسے لوگوں  کے بارے میں  حضرت عبد اللہ بن مسعودرَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس امت میں  بھی جو نبی بھیجا اس نبی کے لئے اس امت میں  سے کچھ مدد گار اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقۂ کار پر کار بند رہتے، پھر ان صحابہ کے بعد کچھ نالائق لوگ پیدا ہوئے جنہوں  نے اپنے کام کے خلاف بات کی اور جس کا حکم دیاگیا اس کے خلاف کام کیا لہٰذا جس شخص نے ہاتھوں  سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے ان کے خلاف زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے،اور جس نے دل سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور ا س کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص۴۴، الحدیث: ۸۰(۵۰))

نما ز ضائع کرنے کی صورتیں  اور 3 وعیدیں :

اس آیت میں  نمازیں  ضائع کرنے کو سب سے پہلے اور دیگر گناہوں  کو بعد میں  ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نمازیں  ضائع کرنا گناہوں  کی جڑ ہے۔ نمازیں  ضائع کرنے کی کئی صورتیں  ہیں ، جیسے نماز نہ پڑھنا، بے وقت پڑھنا، ہمیشہ نہ پڑھنا، ریا کاری سے پڑھنا اور نیت کے بغیر نماز شروع کر دینا وغیرہ ۔ اَحادیث میں  نماز ضائع کرنے کی بہت وعیدیں  بیان کی گئی ہیں  ، ان میں  سے 3 وعیدیں  درج ذیل ہیں ۔

(1)…حضرت نوفل بن معاویہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی نماز فوت ہوئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔( بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۱، الحدیث: ۳۶۰۲)

(2)…حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا سے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قصداً نماز ترک نہ کرو کیونکہ جو قصداً نماز ترک کردیتا ہے،  اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے بری الذِّمہ ہیں۔(مسند امام احمد، مسند القبائل، حدیث امّ ایمن رضی  اللہ عنہا، ۱۰ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۷۴۳۳)

(3)…حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت سے کتاب والے اور دودھ والے ہلاک ہوں  گے۔ میں  نے عرض کی: یا رسولَ  اللہ! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کتاب والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو  اللہ کی کتاب کو اس لئے سیکھیں  گے تاکہ اس کے ذریعے ایمان والوں  سے جھگڑا کریں ۔ میں  نے پھر عرض کی: یا رسولَ  اللہ!صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دودھ والوں  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہیں  جو خواہشات کی پیروی کریں  گے اور اپنی نمازیں  ضائع کریں  گے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ مریم، سیہلک من امتی اہل الکتاب واہل اللبن، ۳ / ۱۲۶، الحدیث: ۳۴۶۹)

{فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا: عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں  گے۔} آیت کے اس حصے میں  نمازیں  ضائع کرنے اور  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں  اپنی خواہشوں  کی پیروی کرنے والوں  کا انجام بیان کیا گیا کہ وہ عنقریب جہنم کی خوفناک وادی غی میں  ڈال دئیے جائیں  گے۔

جہنم کی وادی ’’غَی‘‘کا تعارف:

            حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں  بھی پناہ مانگتی ہیں  ۔یہ اُن لوگوں  کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں  ، جو شراب کے عادی ہوں ، جو سود خور اور سود کے عادی ہوں ، جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں  اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔(بغوی، مریم، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۱۶۸)

            صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں : غی جہنم میں  ایک وادی ہے ،جس کی گرمی اور گہرائی سب سے زیادہ ہے، اس میں  ایک کنواں  ہے، جس کا نام ’’ہَبْہَبْ‘‘ ہے، جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کنویں  کو کھول دیتا ہے ،جس سے و ہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے۔ قَالَ  اللہُ  تَعَالٰی :( اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)

’’ كُلَّمَاخَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا‘‘

جب بجھنے پر آئے گی ہم انھیں  اور بھڑک زیادہ کریں  گے۔‘‘

یہ کنواں  بے نمازوں  اور زانیوں  اور شرابیوں  اور سود خواروں  اور ماں  باپ کو اِیذا دینے والوں  کے لیے ہے۔(بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کا بیان، ۱ / ۴۳۴)