Home ≫ ur ≫ Surah Muhammad ≫ ayat 12 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَ یَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَ النَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ(12)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ: بیشک اللہ داخل فرمائے گا۔} اس سے پہلی آیات
میں ایمان والوں اور کافروں کا دنیوی حال بیان
کیا گیا اور اس آیت میں ان دونوں کا اخروی حال بیان کیا جا
رہا ہے ،چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ایمان والوں کا مددگار ہے اس لئے
انہیں اس کا آخرت میں ثمرہ یہ ملے گا کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور اچھے
اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے
گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور
کافروں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے انجام کو فراموش
کئے ہوئے ہیں اور غفلت کے ساتھ چند دنوں کے لئے اپنے مال و
متاع سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ایسے کھاتے ہیں جیسے جانور
کھاتے ہیں کیونکہ جانوروں کو یہ تمیز نہیں ہوتی
کہ کہاں سے کھانا ہے، ا س لئے انہیں جہاں سے جو
مل جائے اسے کھانا شروع کر دیتے ہیں ، اسی طرح کھاتے وقت جانور اس چیز سے غافل
ہوتے ہیں کہ اس کھانے کے بعد وہ ذبح کر دئیے جائیں گے اور
یہی حال کفار کا ہے جو حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر کھاتے رہتے
ہیں اور غفلت کے ساتھ دنیا طلب کرنے اور ا س کے عیش و عشرت سے فائدہ
اٹھانے میں مشغول ہیں اور آنے والی مصیبتوں کا
خیال بھی نہیں کرتے حالانکہ جہنم کی آگ ان کا ٹھکانا ہے۔( تفسیرکبیر، محمد، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۴-۴۵، روح البیان، محمد، تحت
الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۵۰۳، ملتقطاً)
کافروں اور
ایمان والوں میں فرق
علامہ
اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے
ہیں :اس کا حاصل یہ ہے کہ کافرصرف اپنے پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت کو
پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں اور آخرت کی جانب کوئی توجہ
نہیں کرتے تو انہوں نے اپنے دنوں کو کفر اور
گناہوں میں ضائع کر دیا اور دنیا
میں جانوروں کی طرح کھاتے پیتے رہے جبکہ ایمان
والے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و
فرمانبرداری کرتے ہیں ،ریاضت اور مجاہدے کرنے
میں مشغول رہتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں عالیشان جنتیں عطا فرما
کر ان پر احسان فرمایا اور یہیں سے سیِّدُ المرسلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان ’’دنیا
مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے ‘‘کا راز ظاہر ہوا کہ مومن ا س چیز کو
پہچانتا ہے کہ دنیا قید خانہ ہے اور ا س کی نعمتیں زائل ہونے والی
ہیں ،اس لئے وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پابند بنا دیتا ہے جس کے نتیجے
میں اسے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) جنت اور اس کی ہمیشہ باقی رہنے والی
نعمتیں نصیب ہوتی ہیں اور کافر چونکہ آخرت کا منکر ہے ا س
لئے وہ دنیا میں لذّتوں اور عیش و عشرت
میں مشغول ہوا تو ا س کے لئے آخرت میں جہنم کی قید اور
زَقُّوم کھانے کے سواکچھ باقی نہ بچا۔( روح البیان، محمد،
تحت الآیۃ: ۱۲، ۸ / ۵۰۴)
افسوس!
فی زمانہ مسلمانوں کی غفلت کا حال بھی کچھ کم نظر نہیں آتا
اور ان کا حال دیکھ کر یہ نظر آتا ہے کہ وہ موت کے بعد قبر و حشر کے ہولناک احوال
سے بے فکر ہیں ،اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں ہونے والی پیشی اور اعمال کے حساب سے غافل ہیں اور ان
کامقصودصرف دنیا کے عیش و عشرت سے لطف اندوز ہونا اور ا س کی زیب و زینت سے فائدہ
اٹھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ
انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطافرمائے ،اٰمین۔
مومن اور کافر کے کھانے
میں فرق:
یہاں آیت
کی مناسبت مومن اور کافر کے کھانے میں 4 فرق ملاحظہ ہوں :
(1)… سچا مسلمان کھانے
سے پہلے حلال وحرام کی تمیزکرتاہے کہ کیامیرے لیے اس کاکھاناشرعاًجائز بھی ہے یا
نہیں ؟ جبکہ کافر جانوروں کی طرح حلال وحرام کی تمیزکیے
بغیرکھاتارہتاہے ۔
(2)… کافر کی
نظرجانوروں کی طرح ہر وقت کھانے پینے میں رہتی
ہیں جبکہ مومن کی نگاہ ذکر و فکر میں رہتی ہے۔
(3)… کافر کھانے پینے کا
حریص ہوتاہے جبکہ مومن قَناعَت کرنے والا ہوتا ہے۔
(4)…کافر جانور کی طرح اپنے
انجام سے غافل رہتے ہوئے کھاتا پیتاہے جبکہ مومن اپنے انجام پر نگاہ رکھتے اورا س
کی فکر کرتے ہوئے کھاتا ہے ۔
یاد
رہے کہ دنیا کی نعمتوں سے لُطف اندوز ہونا بُرانہیں بلکہ
بُرا یہ ہے کہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر جو کچھ ملے اس سے فائدہ اٹھانا شروع
کر دیا جائے، یونہی بُرا یہ ہے کہ نعمتوں میں مشغول ہو کر
اپنی آخرت کو فراموش کر دیا جائے، بُرا یہ ہے کہ
نعمتوں میں کھو کر بندہ اپنے انجام سے غافل ہو جائے ا س لئے
جو مسلمان اپنے انجام کی فکر کرتے ہوئے اور آخرت کو بہتر بنانے کی تیاری کرتے
ہوئے دنیا کی جائز و حلال نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اس
میں کوئی برائی نہیں اور جو مسلمان حلال و حرام کی پرواہ
کئے بغیر نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے یا اپنی آخرت اور انجام سے بے
فکر ہو کر نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں مشغول رہتا ہے وہ
ضرور برا ہے ۔