banner image

Home ur Surah Muhammad ayat 19 Translation Tafsir

مُحَمَّد

Muhammad

HR Background

فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ(19)

ترجمہ: کنزالایمان تو جان لو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو اور اللہ جانتا ہے دن کو تمہارا پھرنا اور رات کو تمہارا آرام لینا۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو اور (اے لوگو!)اللہ دن کے وقت تمہارے پھرنے اور رات کو تمہارے آرام کرنے کو جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ: تو جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔} یعنی جب آپ نے جان لیا کہ قیامت قائم ہوتے وقت نصیحت حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا تو آپ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں  جو علم اور یقین رکھتے ہیں  اس پر قائم رہیں  کیونکہ یہ قیامت کے دن ضرور نفع دے گا۔(صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۷)

{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں  اور عام مسلمان مردوں  اور عورتوں  کے گناہوں  کی معافی مانگو۔} یہاں  آیت میں  اگر خطاب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں  ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کوئی گناہ ہوا تھاجس کی معافی مانگنے کا فرمایا گیا کیونکہ آپ یقینی طور پر گناہوں  سے معصوم ہیں  بلکہ یہ کسی دوسرے مقصد کے پیش نظر فرمایا گیا ہو گا، جیسا کہ امام جلالُ الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گناہوں  سے معصوم ہیں  ،اس کے باوجود آپ کو گناہ سے مغفرت طلب کرنے کا فرمایا گیا(یہ امت کی تعلیم کے لئے ہے) تاکہ اس معاملے میں  امت آپ کی پیروی کرے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مغفرت طلب بھی کی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:’’میں  روزانہ سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  استغفار کرتا ہوں ۔( جلالین، القتال، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۲۱)

            علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :یہاں  حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ’’ذَنْبْ‘‘ کی جو نسبت کی گئی اس سے مراد آپ کے اہلِ بیت کی خطائیں ہیں  ،نیزاس آیت میں  امت کے لئے بھی بشارت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ مسلمان مردوں  اور عورتوں  کے گناہوں  کی بھی مغفرت طلب فرمائیں  اور آپ کی شان یہ ہے کہ آپ شفاعت فرمانے والے اورمَقْبُولُ الشَّفاعَت ہیں  (تو آپ جس کی مغفرت طلب فرمائیں  گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضرور قبول ہو گی۔)( صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۸)

            نوٹ:اس مسئلے کے بارے میں  مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے پارہ24، سورہِ مومن ،آیت نمبر 55 کے تحت مذکور تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

{وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ: اور اللہ جانتا ہے۔} یہاں ایمان والوں  اور دیگر تمام لوگوں  سے خطاب فرمایاگیا کہ اے لوگو!اللہ تعالیٰ تم لوگوں  کے دن کے وقت کی مشغولیات اور رات کے وقت تمہارے آرام کرنے کو جانتا ہے۔یعنی وہ تمہارے تمام احوال کو جاننے والا ہے ، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں  ہے تو تم اس سے ڈرو ۔( جلالین مع صاوی، محمد، تحت الآیۃ: ۱۹، ۵ / ۱۹۵۸)