banner image

Home ur Surah Nuh ayat 28 Translation Tafsir

رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا(28)

ترجمہ: کنزالایمان اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا مگر تباہی۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے میرے رب !مجھے اور میرے ماں باپ کو اور میرے گھر میں حالتِ ایمان میں داخل ہونے والے کو اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کوبخش دے اور کافروں کی تباہی میں اضافہ فرمادے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ: اے میرے رب! مجھے بخش دے۔} کفار کے خلاف دعا کرنے کے بعد حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے لئے، اپنے والدین اور مومن مَردوں  اور عورتوں  کے لئے دعا کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  عرض کی: اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اور میرے ماں  باپ کو اور میرے گھر میں  ایمان کی حالت میں  داخل ہونے والے کو اور قیامت تک آنے والے سب مسلمان مَردوں  اور سب مسلمان عورتوں  کوبخش دے اور کافروں  کی تباہی میں  اضافہ فرما دے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرمائی اوران کی قوم کے تمام کفار کو عذاب سے ہلاک کردیا۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں  کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں  حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی لہٰذا یہ ممکن نہیں  کہ انہوں  نے جو دعا مسلمانوں  کے بارے میں  فرمائی اسے اللّٰہ تعالیٰ قبول نہ فرمائے۔( خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۲۸، ۴ / ۳۱۴-۳۱۵، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۱۲۸۶، ملتقطاً)

انتقال کر جانے والوں  کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والدین مومن تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انتقال کر جانے والے مسلمانوں  کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے کہ اس سے انہیں  فائدہ ہو تا ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میت قبر میں  ڈوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہی ہوتی ہے کہ ماں  ،باپ، بھائی یا دوست کی دعائے خیر پہنچنے کی منتظر رہتی ہے،پھر جب اسے دعا پہنچ جاتی ہے تو اسے یہ دعا دنیا اور اس کی تمام نعمتوں  سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ زمین والوں  کی دعا سے قبر والوں  کو پہاڑوں  کی مانند ثواب دیتا ہے اور یقیناً زندہ کا مُردوں کے لیے تحفہ ان کے لیے دعائے مغفرت ہے۔( شعب الایمان، الرابع والستون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی زیارۃ القبور، ۷ / ۱۶، الحدیث: ۹۲۹۵)