Home ≫ ur ≫ Surah Saba ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًاؕ-یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَهٗ وَ الطَّیْرَۚ-وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَقَدْ: اور بیشک۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تین فضائل بیان فرمائے ہیں ۔
(1)…حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔
(2)…پہاڑوں اور پرندوں کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم دیا۔
(3)… حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم فرما دیا۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تین فضائل تو اس آیت میں بیان ہوئے اور مزید 4فضائل درجِ ذیل آیات میں بیان ہوئے ہیں ۔
(1)… حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زبور عطا فرمائی گئی،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۵۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
(2)… انہیں کثیر علم عطا فرمایا گیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا‘‘(النمل:۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو بڑا علم عطا فرمایا۔
(3)… انہیں غیر معمولی قوت سے نوازا گیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ‘‘(ص:۱۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہمارے نعمتوں والے بندے داؤد کو یاد کرو بیشک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔
(4)… انہیں زمین میں خلافت سے سرفراز کیا گیا،چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ‘‘(ص:۲۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں (اپنا) نائب کیا۔
{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا: اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا۔} آیت کے اس حصے میں بڑے فضل سے مراد نبوت اور کتاب ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ملک ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے آواز کی خوبصورتی وغیرہ وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی گئیں ۔ (خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷)
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اللہ تعالیٰ کے فضل میں فرق:
آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی طرف سے بڑا فضل دیا جبکہ اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے ہر طرح کے فضل اور فضل کے کمال کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد فرمایاکہ
’’وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(النساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ پر اللہ کافضل بہت بڑا ہے۔
{یٰجِبَالُ: اے پہاڑو!} اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ ’’ اے پہاڑواور اے پرندو!جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ۔چنانچہ جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تسبیح کرتے تو پہاڑوں سے بھی تسبیح سنی جاتی اور پرندے جھک آتے ۔یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا معجزہ تھا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷، مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۹۵۷، ملتقطاً)
نوٹ:حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورۂ انبیاء کی آیت نمبر79میں بھی گزر چکا ہے۔
{وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِیْدَ: اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے اللہ تعالیٰ نے لوہا نرم فرما دیا کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دست مبارک میں آتا تو موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہوجاتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے جو چاہتے بغیر آگ کے اور بغیر ٹھونکے پیٹے بنالیتے۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہا نرم کرنے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں کے حالات کی جستجو کے لئے اس طرح نکلتے کہ لوگ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان نہ سکیں ،اور جب کوئی ملتا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہچان نہ پاتاتو اس سے دریافت کرتے کہ’’ داؤد کیسا شخص ہے ؟وہ شخص ان کی تعریف کرتا۔اس طرح جن سے بھی اپنے بارے میں پوچھتے تو سب لوگ آپ کی تعریف ہی کرتے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانی صورت میں ایک فرشتہ بھیجا۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے بھی حسبِ عادت یہی سوال کیا تو فرشتے نے کہا ’’ داؤد ہیں تو بہت ہی اچھے آدمی، کاش! ان میں ایک خصلت نہ ہوتی ۔ اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا: ’’اے خدا کے بندے !وہ کون سی خصلت ہے؟ اس نے کہا: وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ بیتُ المال سے لیتے ہیں ۔یہ سن کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خیال میں آیا کہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیتُ المال سے وظیفہ نہ لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہ ِالٰہی میں دعا کی کہ اُن کے لئے کوئی ایسا سبب بنادے جس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے اہل و عیال کا گزارہ کرسکیں اور بیت المال (یعنی شاہی خزانے) سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے نیازی ہو جائے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے لوہے کو نرم کر دیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ سازی کی صَنعت کا علم دیا ۔سب سے پہلے زرہ بنانے والے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی ہیں ۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روزانہ ایک زرہ بناتے تھے اور و ہ چار ہزار درہم میں بکتی تھی اس میں سے اپنے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ فرماتے اور فقراء و مَساکین پر بھی صدقہ کرتے۔ (خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۳ / ۵۱۷، ملخصاً)
نوٹ: حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ا س فضیلت کا بیان سورۂ اَنبیاء کی آیت نمبر80میں بھی گزر چکا ہے۔