banner image

Home ur Surah Saba ayat 20 Translation Tafsir

سَبَا

Surah Saba

HR Background

وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(20)

ترجمہ: کنزالایمان اور بے شک ابلیس نے انہیں اپنا گمان سچ کر دکھایا تو وہ اس کے پیچھے ہولیے مگر ایک گروہ کہ مسلمان تھا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایاتو وہ لوگ شیطان کے پیروکار بن گئے سوائے مومنوں کے ایک گروہ کے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْهِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّهٗ: اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا۔} یعنی ابلیس جو گمان رکھتا تھا کہ وہ بنی آدم کو شہوت و حرص اور غضب کے ذریعے گمراہ کردے گا۔ یہ گمان اس نے اہلِ سبا پر بلکہ تمام کافروں  پر سچا کر دکھایا کہ وہ اس کے پیروکار ہوگئے اور اس کی اطاعت کرنے لگے ۔حضرت حسن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ شیطان نے نہ کسی پر تلوار کھینچی ،نہ کسی پر کوڑے مارے بلکہ جھوٹے وعدوں  اور باطل اُمیدوں  سے ا س نے اہلِ باطل کو گمراہ کردیا۔( خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۵۲۲، ملخصاً)

شیطان اور انسان:

            یہ آیتِ مبارکہ ہر مسلمان کے لئے انتہائی قابلِ غور اور عبرت انگیز ہے ۔ جب شیطان حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کرنے سے انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود ہوا تو اس نے کہا تھا: ’’رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(حجر:۳۹،۴۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رب میرے ! مجھے اس بات کی  قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں  ضرورزمین میں  لوگوں  کیلئے (نافرمانی) خوشنما بنادوں  گا اور میں  ضرور ان سب کو گمراہ کردوں  گا۔ سوائے اُن کے جو اِن میں  سے تیرے چنے  ہوئے بندے ہیں ۔

             اب عقلمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں  مصروف رہتا اور اپنے اَزلی دشمن شیطان کے مکر و فریب سے ہوشیار رہتا اور اس کے بچھائے ہوئے جال میں  نہ پھنستا ، لیکن افسوس!شیطان کے بہکاوے میں  آکر انسان نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر لیا۔

 شیطان انسان کو کفر اور گناہ پر مجبور نہیں  کر سکتا:

            یاد رکھیں  کہ شیطان انسان کو گناہ اور کفر و گمراہی پر مجبور نہیں  کر سکتا بلکہ صرف اس کے دل میں  وسوسہ ڈال کر اسے بہکانے کی کوشش کر سکتا ہے ،اسی وجہ سے ایک آیت میں  وضاحت ہے کہ قیامت کے دن ابلیس کہے گا:

’’ وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ‘‘(ابراہیم:۲۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مجھے تم پر کوئی زبردستی نہیں  تھی مگر یہی کہ میں  نے تم کو بلایا توتم نے میری مان لی۔

             لہٰذا اس فریبی سے ہر مسلمان کو ہر وقت بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ‘‘(فاطر:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہرگز بڑا فریبی تمہیں  اللہ کے بارے میں  فریب نہ دے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں  شیطان کے مکر و فریب سے بچنے اور اس کی فریب کاریوں  سے ہوشیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

{فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ: تو مومنوں  کے ایک گروہ کے علاوہ وہ اس کے پیروکار ہوگئے۔} یعنی اہل ِسبا نے شرک و مَعْصِیَت میں  شیطان کی پیروی کی البتہ مومنوں  کے ایک گروہ نے دین کے اصول میں  شیطان کی پیروی نہ کی۔(روح البیان، سبأ، تحت الآیۃ: ۲۰، ۷ / ۲۸۷)