Home ≫ ur ≫ Surah Saba ≫ ayat 34 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَاۤۙ-اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(34)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ: اور ہم نے (جب کبھی) کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا۔} اس آیت میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسکین ِخاطر فرمائی گئی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کفار کی تکذیب و انکار سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ کفار کا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ یہی دستور رہا ہے اور مالدار لوگ اسی طرح اپنے مال اور اولاد کے غرور میں انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے رہے ہیں ۔( مدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۴، ص۹۶۴)
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ دو شخص تجارت میں شریک تھے، اُن میں سے ایک ملکِ شام کو گیا اور ایک مکہ مکرمہ میں رہا۔جب نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعلانِ نبوت فرمایا اور اُس نے ملک ِشام میں حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبرسنی تو اپنے شریک کوخط لکھا اور اس سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تفصیلی حال دریافت کیا ۔اس شریک نے جواب میں لکھا کہ محمد ِمصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی نبوت کا اعلان توکیا ہے لیکن چھوٹے درجے کے حقیر و غریب لوگوں کے علاوہ اور کسی نے ان کی پیروی نہیں کی۔ جب یہ خط اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے تجارتی کام چھوڑ کر مکہ مکرمہ آیا اور آتے ہی اپنے شریک سے کہاکہ مجھے سید ِعالَم محمد ِمصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پتہ بتاؤ ۔ پتہ معلوم کرکے وہ شخص حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا کو کیا دعوت دیتے ہیں اور ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بت پرستی چھوڑ کر ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اسلام کے احکام بتائے۔ یہ باتیں اس کے دل میں اثر کر گئیں اور وہ شخص پچھلی کتابوں کا عالِم بھی تھا،کہنے لگا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بے شک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا’’ تم نے یہ کیسے جانا ؟اس نے کہا کہ جب کبھی کوئی نبی بھیجا گیا پہلے چھوٹے درجے کے غریب لوگ ہی اس کے تابع ہوئے ،یہ سنتِ اِلٰہیہ ہمیشہ ہی جاری رہی ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔( در منثور، سبأ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۷۰۴، ملخصاً)
مالداروں اور غریب لوگوں کا حال:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اکثر مالدار ہی انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے ہیں اور غریب لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ قانون قیامت تک رہے گا کہ اکثر سردار اور مالدار گناہوں میں پیش پیش جبکہ غریب لوگ نیکیوں میں آگے آگے ہوں گے ۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں دیکھی جارہی ہیں۔