Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ-اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ(21)اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْۚ-خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَ لَا تُشْطِطْ وَ اهْدِنَاۤ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ(22)اِنَّ هٰذَاۤ اَخِیْ- لَهٗ تِسْعٌ وَّ تِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ- فَقَالَ اَكْفِلْنِیْهَا وَ عَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ(23)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِۘ: اور کیا تمہارے پاس ان دعویداروں کی خبر آئی۔} مشہور قول کے مطابق یہ آنے والے فرشتے تھے جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آزمائش کے لئے آئے تھے،اور انہوں نے جو یہ کہا ’’ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے‘‘اس کے بارے میں صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ ان کا یہ قول ایک مسئلہ کی فرضی شکل پیش کرکے جواب حاصل کرنا تھا اور کسی مسئلہ کے متعلق حکم معلوم کرنے کے لئے فرضی صورتیں مقرر کرلی جاتی ہیں اور مُعَیَّن اَشخاص کی طرف ان کی نسبت کردی جاتی ہے تاکہ مسئلہ کا بیان بہت واضح طریقہ پر ہواور اِبہام باقی نہ رہے۔ یہاں جو صورتِ مسئلہ ان فرشتوں نے پیش کی اس سے مقصود حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کو توجہ دلانا تھی اس امر کی طرف جو انہیں پیش آیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ کی ننانوے بیبیاں تھیں ، اس کے بعد آپ نے ایک اور عورت کو پیام دے دیا جس کو ایک مسلمان پہلے سے پیام دے چکا تھا لیکن آپ کا پیام پہنچنے کے بعد عورت کے اَعِزّہ واَقارب دوسرے کی طرف اِلتفات کرنے والے کب تھے ،آپ کے لئے راضی ہوگئے اور آپ سے نکاح ہوگیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ نکاح ہوچکا تھا آپ نے اس مسلمان سے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور چاہا کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے، وہ آپ کے لحاظ سے منع نہ کرسکا اور اس نے طلاق دے دی ،آپ کا نکاح ہوگیا اور اس زمانہ میں ایسا معمول تھا کہ اگر کسی شخص کو کسی کی عورت کی طرف رغبت ہوتی تو اس سے اِستدعا کرکے طلاق دلوا لیتا اوربعدِعدت نکاح کرلیتا ،یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز ہے نہ اس زمانہ کے رسم وعادت کے خلاف ،لیکن شانِ انبیاء بہت ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے اس لئے یہ آپ کے مَنصبِ عالی کے لائق نہ تھا تو مرضی ٔالٰہی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر آگاہ کیا جائے اور اس کا سبب یہ پیدا کیا کہ ملائکہ مدعی (یعنی دعویٰ کرنے والے) اور مدعا علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ کیا جائے) کی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہوئے۔( خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر بزرگوں سے کوئی لغزش صادر ہواور کوئی امر خلافِ شان واقع ہوجائے تو ادب یہ ہے کہ مُعتَرِضانہ زبان نہ کھولی جائے بلکہ اس واقعہ کی مثل ایک و اقعہ مُتَصَوَّر کرکے اس کی نسبت سائلانہ و مُستفتیانہ و مُستفیدانہ سوال کیا جائے اور ان کی عظمت و احترام کا لحاظ رکھا جائے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مالک ومولیٰ اپنے اَنبیاء کی ایسی عزت فرماتا ہے کہ ان کو کسی بات پرآگا ہ کرنے کے لئے ملائکہ کو اس طریقِ ادب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔(خزائن العرفان، ص، تحت الآیۃ: ۲۲، ص۸۴۰)
نوٹ:اِس آیت کی تفسیر میں جو بیان ہوا یہی حقیقت ِ حال ہے بقیہ جو اسرائیلی و یہودی روایات میں اس بارے میں بکواسات مروی ہیں وہ سب جھوٹ اور اِفتراء ہیں ۔
یاد رہے کہ دیوار کود کر آنے والوں کو دیکھ کر حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا گھبرانا فطری اور طبعی تھا کیونکہ کسی شخص کا عادت کے برخلاف بے وقت اور پہرہ توڑ کر اس طرح آنا عام طور پر بُری نیت سے ہی ہوتا ہے اورجو خوف اور گھبراہٹ طبعی ہو وہ نبوت کے مُنافی نہیں ہوتی ۔
دیوار کود کر آنے والوں نے آتے ہی اپنی بات شروع کر دی اور حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خاموشی کے ساتھ ان کی بات سنتے رہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص گفتگو کے آداب کی خلاف ورزی کرے تو اسے فوراً ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے پہلے اس کی بات سن لینی چاہئے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز تھا یا نہیں اور اگر جواز نہ بھی ہو تو بھی ممکنہ حد تک صبر ہی کرنا چاہئے جیسا کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آدابِ گفتگو کی خلاف ورزی ہونے پر در گرز کرتے اور صبر فرمایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں حضرت زید بن سعنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک مرتبہ انتہائی سخت انداز میں حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام کیا لیکن حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ صرف خود حِلم ،صبر اور عَفْوو درگزرکا مظاہرہ فرمایا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بھی ان کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔