Home ≫ ur ≫ Surah Sad ≫ ayat 24 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیْلٌ مَّا هُمْؕ-وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ(24)
السجدة (10)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ: داؤد نے فرمایا۔} حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ سن کر دوسرے فریق سے پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا ،آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعویٰ کرنے والے سے فرمایا کہ’’ بیشک تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر ایمان والے اور اچھے کام کرنے والے کسی پر زیادتی نہیں کرتے لیکن وہ ہیں بہت تھوڑے۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ گفتگو سن کر فرشتوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور تَبَسُّم کرکے وہ آسمان کی طرف روانہ ہوگئے۔اب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو صرف انہیں آزمایا تھا اور دنبی ایک کِنایہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیونکہ ننانوے عورتیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواہش کی تھی اس لئے دنبی کے پیرایہ میں سوال کیا گیا ،جب آپ نے یہ سمجھا تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ص۱۰۱۹، خازن، ص، تحت الآیۃ: ۲۴، ۴ / ۳۵، ملتقطاً)
نوٹ: یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن کے پڑھنے اور سننے والوں پر سجدۂ تلاوت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں رکوع کرنا سجدئہ تلاوت کے قائم مقام ہوجاتا ہے جب کہ رکوع میں اس کی نیت کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ا س معاملے میں وحی کے ذریعے اپنے پیارے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تربیت فرمانے کی بجائے جو خاص طریقہ اختیار فرمایا اس میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے والے کے لئے بھی ہدایت کا سامان موجود ہے کہ جب وہ کسی کی اصلاح کرنے لگے تو اس وقت حکمت سے کام لے اور موقع کی مناسبت سے ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے سامنے والا اپنی غلطی خود ہی محسوس کر لے ،اسے زبانی تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس کے لئے مثال بیان کرنے کا طریقہ اور کنایہ سے کام لینابہت مُؤثّر ہوتا ہے ،اس میں کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور اصل مقصود بھی حاصل ہو جاتا ہے۔